• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • سمندر پار پاکستانی اور سوشل میڈیا: حقوق، فرائض اور ذمہ داریاں۔۔۔۔عبداللہ خان چنگیزی

سمندر پار پاکستانی اور سوشل میڈیا: حقوق، فرائض اور ذمہ داریاں۔۔۔۔عبداللہ خان چنگیزی

ایک وضاحت

کہتے ہیں ایک شہزادی سیر کو نکلی اور چلتے چلتے اُس کا گزر ایک ایسے سرسبز و شاداب علاقے سے ہوا  جہاں ہرے بھرے کھیت تھے اور اُن کھیتوں میں ایک دہقان (کسان) اپنے کام میں مشغول تھا۔ شہزادی نے دیکھا کہ سخت گرمی کا موسم ہے مگر پھر بھی وہ کسان اپنے کام میں لگا ہوا ہے اور مسلسل کھیت میں سے کچھ خود رُو جھاڑیوں کی چھانٹ میں مصروف ہے۔ شہزادی بہت حیران ہوئی اور اپنے نوکروں کو حکم دیا کہ جاو اور اُس شخص کو لے کر آو جو کھیت میں کام کر رہا ہے۔

شہزادی کے خادم گئے اور کسان کو اپنے ساتھ لے کر آئے، جب شہزادی نے کسان کو گرد آلود کپڑوں اور پسینے میں شرابور دیکھا تو اُس سے کہنے لگی۔

کیا تم کو اِس گرمی میں کام کرتے ہوئے تکلیف محسوس نہیں ہو رہی؟

کسان نے جواب دیا۔۔۔شہزادی صاحبہ میں ایک کسان ہوں اور اپنی مٹی سے رزق کمانے کا مجھے شوق ہی نہیں بلکہ میری زندگی ہے۔ میں اپنے اِن کھیتوں سے حد سے زیادہ پیار کرتا ہوں بالکل ایسا جیسے بچہ اپنی ماں سے اور باپ اپنے بچوں سے کرتا ہے۔

شہزادی نے سوچا کہ ایسا قابل اور محنتی آدمی خواہ مخواہ اِن کھیتوں میں لگا ہوا ہے جبکہ میرا شاہی باغیچہ روز بروز خراب ہوتا جا رہا ہے اور خزاں کا سا سماں پیش کرنے لگا ہے۔ اُس نے نوکروں کو حکم دیا کہ اِس کسان کو اپنے ساتھ لے چلو اب یہ ہمارے باغیچے میں کام کرے گا۔
کسان نے بہت احتجاج کیا مگر شہزادی کا حکم ٹالنے کی کسی میں ہمت نہ تھی مجبوراً کسان کو اُن کے ساتھ جانا پڑا۔۔۔کسان کا اپنے گاوں سے آئے ہوئے بہت وقت گزر چکا تھا وہ ہر روز شام کو اپنے گاوں کی یاد میں روتا رہتا اور جب بھی کوئی اُس کے گاوں جاتا تو وہ ڈھیر ساری باتیں نصیحتیں بتا کر اُس کو کہتا کہ میرا یہ پیغام میرے فلاں دوست تک پہنچانا اور فلاں دوست کو یہ مشورہ دینا کہ کس  فصل میں کتنا پانی دینا مفید ہے اور کس   فصل کے لئے کون سی کھاد کارآمد ثابت ہوگی۔ وہ یہ مشورے اِس لئے دیتا تھا کہ مجبوراً وہ تو اپنے گاوں سے باہر تھا مگر اُس کے دل میں یہ خواہش کبھی ختم نہ ہوئی کہ اُس کا گاوں ہمیشہ سے سرسبز و شاداب رہے۔

اُس کا دل بہت چاہتا تھا کہ وہ اپنے گاوں واپس جاکر خود ہر ایک مسئلے کو دیکھے مگر شہزادی اُس کے کام سے بہت خوش تھی اور وہ کسان کو کسی صورت واپس جانے نہیں دے رہی تھی، بس ہوتا یہی تھا کہ کسان ہر روز سوچتا اور آہیں بھرتا رہتا کہ کاش کسی طرح اِس شہزادی کو مجھ سے نفرت ہوجائے اور میں آزاد ہو سکوں مگر شاید اُس کی قسمت ہی شہزادی کے باغیچے میں کام کرنا تھا۔

مندرجہ بالا کہانی میں کرداروں کو اِس انداز سے سمجھا جائے۔

کسان:وہ پردیسی جو اپنے وطن سے باہر زندگی گزار رہا ہے۔

لہلہاتے کھیت:پردیسی کا اپنا وطن جہاں سے وہ نکالا گیا یا مجبوری کے تحت نکل گیا۔

شہزادی:وہ مجبوریاں اور مسائل ہیں جبراً جو ایک انسان کو پردیس جانے پر مجبور کرتی ہیں۔

کسان کے پیغامات پہنچانے والے لوگ:وہ تمام ذرائع خواہ وہ سوشل میڈیا ہو یا دوسرے ایسے جن کے تواسط سے ایک پردیسی اپنا پیار و محبت ظاہر کرتا ہے اپنے بچھڑے ہوئے وطن کے ساتھ۔

سمندر پار پاکستانیوں کے حقوق بذریعہِ سوشل میڈیا

جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ حقوق جمع ہے حق کی اور حق کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی شخص کا کسی بھی معاملے میں خود کو حصہ دار سمجھنا۔ بہ الفاظ دیگر ہم کہہ سکتے ہیں کہ سمندر پار پاکستانی کو بھی اُتنا ہی حق حاصل ہے اپنے ملک و ملت کے بارے میں کسی بھی قسم کے معاملات میں اپنی رائے دینے کا جتنا کہ پاکستان میں رہنے والوں کو  خواہ وہ ذریعہ کوئی بھی ہو۔

اور آج کے دور میں سوشل میڈیا سے بہتر اور موثر ذریعہ کوئی دوسرا نہیں کیونکہ اگر پردیسی ملک سے باہر چلا گیا ہے تو اِس کا یہ مطلب نہیں کہ اُس کا رشتہ اپنی مٹی سے ختم ہوگیا؟ نہیں بلکہ اُس کا رشتہ تو ابتدا سے اپنے وطن کے ساتھ جڑا ہوا ہے جس مٹی میں وہ پیدا ہوا ہے وہ اُس مٹی کا اختیار کیسے چھوڑ سکتا ہے؟ کوئی بھی انسان اپنے آبائی وطن کو نہ تو کسی کے کہنے پر چھوڑ سکتا ہے نہ ہی اُس کے کسی معاملے سے خود کو دور رکھ سکتا ہے اِس لئے کہ وطن کی پُکار ایسی چیز ہے جو نہ تو کسی سرحد کو مانتی ہے نہ ہی کسی دباو کو خواہ وہ کسی بھی طرح کا ہو۔

اُس کو یہ حق وہ مٹی دیتی ہے جس مٹی میں اُس نے آنکھ کھولی اور اپنا پہلا قدم چلنا سیکھا۔ لہذا یہ بات بعید از قیاس ہے کہ ایک قوم و ملت کا سپوت خود کو اپنے وطن سے دور سمجھے اور اپنے حق پر کسی کو ڈاکا ڈالنے دے۔ وہ ہر وہ اقدام کرنے کے لئے اپنے ذات میں آزاد اور خودمختار ہے جس قدم سے اُس کے ملک و ملت کی سرفرازی مربوط ہو۔

سمندر پار پاکستانیوں کے فرائض بذریعہِ سوشل میڈیا

جس طرح یہ بات تو واضح ہو گئی کہ سمندر پار ہر ایک پاکستانی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے ملک کے حالات کے بارے میں اپنا کردار ادا کرے اِس کے ساتھ کچھ فرائض بھی سامنے آتے ہیں۔ فرائض کیا ہیں اور اُن فرائض کو احسن طریقے سے ادا کرنے کا انداز کیا ہونا چاہیے؟۔

ہمارے ملک میں آئے روز کوئی نہ کوئی مسئلہ درپیش ہوتا رہتا ہے جن میں مذہبی ، سیاسی ، معاشی ، دفاعی ، شدت پسندی ، اور دوسرے بہت سے مسائل شامل ہوتے ہیں۔اب ایک سچے سمندر پار پاکستانی کا فرض کیا ہے؟

کیا وہ یہ سب ہوتا دیکھتا رہے؟

یا کہ پھر اُن مسائل پر اپنی رائے پیش کرے؟

ایسے بہت سے سوالات ہیں جو ہر ایک کے ذہن میں آتے ہیں مگر اِن سوالات کے ساتھ جوابات بھی ضروری ہیں۔

اور وہ یہ ہیں کہ کوئی بھی سمندر پار رہنے والا پاکستانی اِس انداز سے ان تمام مسائل کو سامنے لانے میں اپنا کردار ادا کرے کہ دوسری  اقوام کسی بھی پاکستانی شہری کو رشک کی نگاہ سے دیکھے وہ سوچے کہ ہاں پاکستانی قوم ایک باشعور قوم ہے۔ جس کے بیٹے اتنی سوچ رکھتے ہیں کہ اپنے وطن کی دفاع کیسے کی جاتی ہے۔

سوشل میڈیا میں آج کے دور میں جو قوت ہے اِس کی نظیر پچھلے ادوار میں کہیں نہیں ملتی۔ اِس پلیٹ فارم پر اگر ہم موجود ہیں تو پوری دنیا کے دوسری اقوام بھی موجود ہیں اور وہ دیکھ رہے ہیں کہ پاکستانی قوم کیا کر رہی ہے؟
کیسے ایک پاکستانی اپنے وطن کی عزت کی خاطر اِس ذریعے کو مثبت استعمال کر رہا ہے؟ ہم اگر یہ سوچیں کہ سوشل میڈیا پر ہماری  حرکات و سکنات دوسری  اقوام نہیں دیکھ رہیں  تو یہ ہماری خام خیالی ہے حقیقت تو یہ ہے کہ سوشل میڈیا نے آج کے زمانے میں وہ درجہ حاصل کر لیا ہے جہاں پر اقوام کی ذہنی اور فکری جانچ پڑتال ہوتی ہے۔ اور قوموں کے مثبت و منفی اذہان کی مکمل تحقیقات ہو رہی ہیں۔

اِس وجہ سے سوشل میڈیا پر پاکستانی خاص کر سمندر پار پاکستانی کی کارکردگی اور زیادہ اہمیت کی حامل ہو جاتی ہے۔ کیونکہ خواہ پاکستان میں رہنے والے ہمارے کچھ بھائی دوسری  زبانوں سے مانوس نہ ہوں مگر سمندر پار رہنے والے بہت سے وطن کے سپوت دوسری زبانوں پر عبور رکھتے ہیں۔ اور وہ اِس قابل ہیں کہ اپنی زبان کے علاوہ انگریزی ، عربی ، اور دوسری بہت سی زبانوں میں اپنا مدعا بیان کرسکتے ہیں جس کی بدولت ہمارا تعلق استوار ہو جاتا ہے دوسری اقوام سے۔لہذا افضل اور برتر اقدام یہ ہیں کہ جہاں تک ہو سکے اپنے ملک کا مثبت چہرہ ہم پیش کرنے میں کامیاب ہوں اور ایسا کوئی مواد ہمارے قلم ، فیسبک ، ٹویٹر ، اور دوسرے ذرائع سے شائع نہ ہو کہ جس کی وجہ سے پھر ہماری قوم کو اور ہم کو بدنامی کا سامنے کرنا پڑے۔

سمندر پار پاکستانیوں کی ذمہ داری بذریعہ سوشل میڈیا

ذمہ داری کا  لغوی معنی ایسا  ہے کہ جس میں انسان پر کوئی چیز فرض ہو خواہ وہ مذہبی لحاظ سے ہو یا کہ پھر ملکی و قومی لحاظ سے۔ اِس میں سمندر پار پاکستانی شہری کی ذمہ داری ایک تو یہ ہے کہ وہ کسی ایسے پروپیگنڈے کو ہوا دینے میں اپنا کردار ادا نہ کرے جس سے اُس کے ملک کی بدنامی کا ڈر ہو۔ اختلافات پوری دنیا میں سب لوگوں کے ایک دوسرے کے ساتھ ہوتے رہتے ہیں مگر جب بات وطن کی ہوتی ہے تو ایسے میں کوئی بھی سمندر پار پاکستانی خواہ وہ دنیا کے کسی بھی حصے میں رہ رہا ہو اُس پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے وطن کی عزت اور وقار کو برقرار رکھنے کے لئے خاطر خواہ کوشش جاری رکھے۔اور جس طرح کہ واضح ہے کہ سوشل میڈیا ایک ایسی جگہ ہے جہاں پر اگر تعلیم یافتہ اور باشعور لوگ رہتے ہیں  وہیں  کچھ لوگ ایسے لوگ بھی ہیں جو تعلیم سے دور رہے ہیں اور وہ اِس بات کو سمجھنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں کہ کسی بھی پروپیگنڈے کا حصہ بن کر وہ اپنے ملک کو کیسا نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ایسے لوگ بلا وجہ اور بغیر تحقیق کے اپنی فیسبک وال پر کچھ بھی شئیر کرتے چلے جاتے ہیں خواہ اُس مواد کا تعلق سیاسی ہو مذہبی ہو یا پھر سماجی۔ اِن تمام چیزوں میں لاتعداد ایسا مواد موجود ہے جو دوسری  اقوام کو دکھانے کے لائق نہیں آسان الفاظ میں ایسے کہ یہ ایسا مواد ہوتا ہے کہ جس کی تشریح سے ہماری ملکی ساکھ کو ناقابل یقین نقصان پہنچتا ہے۔

آج کل اگر علوم کا  دور دورا ہے تو ساتھ ساتھ جہالت بھی کسی سے پیچھے نہیں اور اِسی جہالت کا شکار ہو کر کچھ لوگ بغیر تحقیق کے ایسا مواد بغیر سوچے سمجھے شئیر کرنے کو اپنا فریضہ سمجھتے ہیں جس سے قومی نظریات کو دوسری  اقوام کی نگاہ میں ناقابل تلافی نقصان کا سامنا  کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے جتنے بھی سمندر پار پاکستانی بھائی بہنیں ہیں وہ اِس بات کو جان لیں کہ اگر ہمیں سوشل میڈیا تفریح فراہم کرتا ہے تو وہیں وہ ہمارا سب سے خطرناک دشمن بھی بن سکتا ہے جو اِس انداز سے وار کرتا ہے کہ دوسروں کی نظروں میں ہماری عزت صرف ایک ایسے مواد تک محدود ہو جاتی ہے جو ہمارے ہی ہاتھوں اُن تک پہنچتا ہے۔

لہذا اِس مسئلے کو بھی خوب سوچ سمجھ کر سلجھانے کی ضرورت ہے کہ ہم سوشل میڈیا پر اپنے فرائض ایسے احسن طریقے سے نبھائیں جس سے ہمارے تہذیب و کلچر باقی دنیا والوں کے سامنے مثبت انداز سے سامنے آئے نہ کہ منفی اور شدت پسندی و جہالت کی صورت میں۔

آخر میں یہی کہنا چاہوں گا کہ اگر ہم خود خواہ وہ پاکستان میں رہ رہے ہوں یا پھر سمندر پار ہوں اپنی پہچان کو متاثر کُن بنانے کے لئے سوشل میڈیا کا مثبت استعمال نہیں کریں گے تو کوئی دوسرا ہمیں سیکھانے نہیں آئے گا وہ ہمیشہ ہی تنقید اور تضحیک کا نشانہ بنائیں گے مجھ کو ، آپ کو ، ہم سب کو۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ: محفلِ مکالمہ ٢٠١٩ کے سالانہ انعقاد کے موقع پر موضوع کے مطابق  لکھا گیا  مضمون ۔ 

Facebook Comments

عبداللہ خان چنگیزی
منتظر ہیں ہم صور کے، کہ جہاں کے پجاری عیاں ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply