جمعیت، خوداحتسابی کی ضرورت

23 دسمبر کو اسلامی جمعیت طلبہ نے اپنا 70واں یوم تاسیس منایا۔ جمعیت شاید واحد طلبہ تنظیم ہے جو مختلف حوالوں سے مختلف فورمز پر زیربحث رہتی ہے۔ یہ بھی شاید اس بات کی دلیل ہے کہ جمعیت واحد تنظیم ہے جو اپنا وجود برسرزمین رکھتی ہے۔
جناب آصف محمود نے جمعیت کے یوم تاسیس کے حوالے سے “جمعیت، جو میں نے دیکھا” کے عنوان سے ایک تحریر لکھی اور کچھ امور کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کی۔ جواب آں غزل بھی واجب تھا سو یہ ذمہ داری جناب سید معظم معین نے ادا کی اور”جمعیت، ہم نے بھی کچھ دیکھ رکھا ہے”کے عنوان سے تحریر لکھ ڈالی۔ ایسی تحریریں اور جوابی تحریریں تو کبھی بھی جمعیت کے حوالے سے کوئی واقعہ پیش آئے تو سال کے کسی بھی حصے میں نظر آ جاتی ہیں لیکن اگر دوران سال ایسا موقع میسر نہ آسکے تو یوم تاسیس کے موقع پر ضرور پڑھنے کو مل جاتی ہیں۔
جناب آصف محمود نے یونیورسٹی میں گزرے دنوں میں جو مشاہدہ کیا، اسی مشاہدے کی بنیاد پر “وہی مدعی، وہی مخبر، وہی منصف ٹھہرے”کے مصداق ایک مقدمہ کھڑا کیا، دلائل دیے اور اس پر ایک فیصلہ بھی سنا ڈالا کہ ان واقعات کی روشنی میں نہ صرف جمعیت بلکہ تمام طلبہ تنظیموں پر ہی پابندی عاید کر دینی چاہیے۔ جواب میں جو تحریر آئی اس میں سید معظم صاحب نے لکھا کہ “یہ سب وہی باتیں ہیں جو ہم ازل سے سنتے، پڑھتے اور ہنستے آئے ہیں”۔ یہ جملہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ جمعیت اپنے اوپر ہونے والی تنقید کو سرے سے کوئی اہمیت ہی نہیں دیتی اور جمعیت کے لوگ بھی شاید خود کو عقلِ کل سمجھتے ہیں۔
مجھے یہ دعویٰ تو نہیں ہے کہ میں جمعیت کو پوری طرح سے اور اندر باہر سے جانتا ہوں، چونکہ میں جمعیت کا باقاعدہ کارکن نہیں رہا اس لیے ایسا دعویٰ کرنا شاید مناسب بھی نہ ہو یہ الگ بات ہے کہ یونیورسٹی میں سب لوگ مجھے “جماعتیا” ہی کہتے تھے، میں اکثر اب کہا کرتا ہوں کہ میں تو گناہِ بے لذت کا شکار ہی رہا۔ دونوں تحریروں کو دیکھ کر اندازہ ہوا کہ ایک تحریر افراط پر مشتمل تھی تو دوسری تفریط پر، جبکہ اصل حقیقت شاید اس کے درمیان کی ہے۔ آصف محمود صاحب نے جو نکات اٹھائے جمعیت ان سے کسی بھی صورت انکاری نہیں ہو سکتی۔ کوئی اگر بلی کو دیکھ کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینا چاہے یا شترمرغ کی طرح ریت میں سر دے لینا چاہے تو وہ الگ بات ہے۔
دوسری طرف صرف ایسے واقعات کو بنیاد بنا کر تمام مثبت پہلوؤں کو نظرانداز کرنا بھی قرینِ انصاف نہیں۔ تعلیمی اداروں میں تعمیری سرگرمیوں کا کریڈٹ یقینا جمعیت کا ہے اور وہ کریڈٹ جمعیت کو نہ دینا بجا طور پر بخل ہو گا۔ تعلیمی اداروں میں نئے آنے والےطلبہ کی رہنمائی کے لیے کیمپس کا انعقاد ہو یا نئے آنے والے طلبہ کے اعزاز میں فولنگ کی بجائے ویلکم پارٹیز کا انعقاد، کتب میلے اور ایکسپو ہوں یا سپورٹس اور کھیلوں کا انعقاد، یہ سب جمعیت کا ہی خاصہ ہے اور کچھ منفی واقعات کی بنیاد پر ان تمام پہلوؤں کی نفی نہیں کی جا سکتی لیکن جمعیت کو بھی”سب اچھا”کہنے کی عادت ترک کر کے یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ جمعیت کے کردار کو داغدار کرنے والے واقعات کیوں رونما ہوتے ہیں؟ محض یہ کہہ دینا کہ ایسے منفی واقعات میں ملوث افراد کا جمعیت سے اخراج جمعیت کے اندر احتساب کی دلیل ہے، کافی نہیں ہے ،کیونکہ اگر حقیقی احتساب ہو تو پھر دوبارہ ایسے واقعات رونما نہ ہوں۔ جمعیت کی طرف سے ایسے واقعات اکثر ہوتے ہیں جن کی نشاندہی آصف محمود صاحب نے کی تھی۔
مجھے یاد ہے کہ یونیورسٹی کے دور میں جمعیت کے ایک اجتماعِ کارکنان میں مجھے “زبردستی”شریک کرایا گیا، اجتماع میں اس وقت کے ناظمِ صوبہ جو بعد میں ناظمِ اعلیٰ بھی رہے، وہ بھی شریک تھے۔ جمعیت پر لگنے والے الزامات کے حوالے سے گفتگو ہوئی تو میں نے بھی کچھ ایسے واقعات کی نشاندہی تھوڑے مختلف انداز میں کی جن کا ذکر آصف صاحب نے کیا تھا کہ میں نے بھی کچھ نہ کچھ دیکھ رکھا تھا۔ ناظم صاحب نے پوچھا یہ صرف تاثر ہے یا عملی طور پر بھی ایسا ہوتا ہے؟ (جیسے خود وہ کچھ جانتے ہی نہ ہوں)۔ میں نے جواب دیا کہ عملی طور پر بھی ایسا ہوتا ہے اور اکثر جمعیت کے ارکان ایسے “کارنامے” فخر سے اپنے کریڈٹ پہ بیان بھی کرتے ہیں۔ ناظم صاحب نے بات کا جواب دینے کی بجائے گفتگو کا رخ کسی اور طرف موڑ دیا، مجھے احساس ہوا کہ ناظم صاحب بھی شاید باقی سب ارکان کی طرح “سب اچھا” ہی سننا پسند کرتے ہیں۔ ایسے ہی کسی ایک واقعے کے بعد جمعیت کے معتمدِ جامعہ کے ساتھ بحث ہو گئی اور میں نے انہیں یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ جمعیت کا اقدام سراسر غلط تھا، کافی لمبی بحث کے بعد انہوں نے بحث کو یوں سمیٹا کہ “اگر اپنے ہی لوگ ہم پر اس طرح تنقید اور اعتراض کریں گے تو دوسروں سے کیا گِلہ”۔ یہ واقعات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ جمعیت میں یہ سوچ پختہ ہے کہ جو بھی وہ کرتی ٹھیک ہی کرتی ہے۔
جمعیت کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ تعلیمی ادارے ان کی جاگیر نہیں ہیں۔ ایسا کیوں ہے کہ جامعہ پنجاب میں کبھی منتخب وزیرِاعظم نوازشریف اور کبھی عمران خان داخل نہیں ہو سکتے؟ کیا جامعہ پنجاب جمعیت نے اپنے نام رجسڑ کروا رکھی ہے؟ تعلیمی اداروں کے اندر تخلیقی اور تحقیقی سرگرمیوں کے فروغ کی لیے پرتشدد واقعات اور تھانیدارانہ ماحول کی حوصلہ شکنی بے انتہا ضروری ہے۔ جمعیت کے کارکنان کو یہ اجازت کس نے دی ہے کہ پولیس کی طرح جامعات کے اندر کسی لڑکے اور لڑکی کے اکٹھے بیٹھنے پر وہ ان سے ان کے آپس کے رشتے کی وضاحت طلب کریں۔ جب ان سے یہ بات کہی جائے تو حضور نبیِ کریم ﷺ کی حدیث سنا دیتے ہیں کہ “برائی کو دیکھو تو ہاتھ سے روک دو، طاقت نہ ہو تو زبان سے روکو اور ایسا بھی نہ کر سکتے ہو تو دل میں برا جانو اور یہ ایمان کا کمزور تریں درجہ ہے”اور ظاہر ہے کہ جمعیت والے کمزورمسلمان کہلوانا کیوں پسند کریں گے! حضور نبیِ کریم ﷺ کی یہ حدیثِ مبارکہ سیاق وسباق سے ہٹ کر پیش کی جاتی ہے، بزور طاقت روکنا ریاست یا کسی ادارے کی سطح پر ادارے کی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے نہ کہ جس کا جی چاہے اٹھ کر طاقت دکھانا شروع کر دے، اگر ہر کسی کو اس بات کی اجازت دے دی جائے تو معاشرہ فساد سے بھر جائے۔
یہ بات بھی غورطلب ہے کہ تحریکی افراد جب خود کوئی اعلیٰ تعلیم کا ادارہ قائم کرتے ہیں تو اس ادارے میں جمعیت کو داخل بھی نہیں ہونے دیا جاتا۔ ایسے سوالوں کے جواب میں طنز اٹھانا کہ جن یونیورسٹیوں میں جمعیت نہیں ہے وہ کونسا دنیا کی 500 بہتریں یونیورسٹیوں میں شامل ہو گئے! ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ علم دوست جمعیت جس ادارے میں موجود ہوتی اس ادارے کے تحقیقی معیار کو بلند کرنے میں اپنا حصہ ڈالتی لیکن جن جامعات میں جمعیت یا دوسری طلبہ تنظیمیں اپنا ہولڈ رکھتی ہیں وہ دنیا تو کیا خود پاکستان کے اندر بھی رینکنگ میں کہیں نیچے ہیں۔ یہ بات ثابت شدہ ہے کہ لمز ہو یا فاسٹ، نسٹ ہو یا یوایم ٹی یا رفاہ یونیورسٹی، ان کا تعلیمی معیار ان جامعات سے کہیں بہتر ہے جن میں طلبہ تنظیمیں اپنا وجود رکھتی ہیں۔
طلبہ یونینز پر پابندی کے معاملے کے حوالے سے آکسفورڈ یونین کی مثال جمعیت کی طرف سے آئی۔ اس بارے عرض ہے کہ آکسفورڈ یونین اول تو برطانیہ کی کسی سیاسی جماعت یا گروہ کی بغل بچہ نہیں ہوتی اور نہ ہی سیاست میں دخیل ہوتی ہے البتہ وہ طلبہ میں قائدانہ صلاحیتیں اجاگر کرنے میں اپنا کردار ضرور ادا کرتی ہے اور جس طرز اور معیار کے مذاکرے، مباحثے، لیکچرز اور پروگرامز کا انعقاد آکسفورڈ یونین کرواتی ہے ہماری طلبہ تنظیمات اس نہج پر سوچنے کی سوچ بھی نہیں رکھتیں۔ جمعیت کو ایک حقیقی introspection کی ضرورت ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ جمعیت اپنی اداؤں پر خود ہی غور کرے ورنہ پھر جب دوسرے کہتے ہیں تو جمعیت شکایت کرتی ہے۔

Facebook Comments

محمد ہارون الرشید ایڈووکیٹ
میں جو محسوس کرتا ہوں، وہی تحریر کرتا ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply