31 مئی: انسداد سگریٹ نوشی کا عالمی دن۔۔سید مہدی بخاری

میں یہ ماننے کو تیار ہوں کہ سگریٹ پینا بُرا فعل ہے مگر غصہ مجھے ان سادہ لوح حضرات پر آتا ہے جو سگریٹ نہ پینے کو ثواب کا کام سمجھتے ہیں !

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ایک سگریٹ آپ کی زندگی کے دس منٹ کم کر دیتا ہے جبکہ ہنسنا آپ کی زندگی میں پندره منٹ کا اضافہ کر دیتا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ مسکراتا ہوا سموکر کبھی نہیں مر سکتا۔   میں یقیناً  اکیلا نہیں ہنستا آپ کو بھی اپنی تحریروں سے ہنساتا ہوں۔

میرے آفس میں لگا منی پلانٹ کا کیوٹ سا پودا مرجھا گیا تو ایک دن مالی نے کہا “باو جی ! تسی سگریٹ پی پی کے بوٹا مار دتا، اینوں آکسیجن ملدی تے کدی نہ مردا” ۔۔۔ اس کی بات سن کر ایک گھنٹہ میں خود کو قاتل محسوس کرتا رہا ۔ اسی دن فیصلہ کر لیا کہ آئندہ سے اپنے دفتر میں کوئی پودا نہیں رکھنا۔۔

اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ میں کبھی سگریٹ نہیں چھوڑ سکتا تو آپ سراسر غلط فہمی کا شکار ہیں۔ ہوا کچھ یوں کہ اک بار میں نے صدق دل سے فیصلہ کر لیا کہ آئندہ سگریٹ نہ پیوں گا۔ یقین مانیے دو ماہ تک اجتناب کرتا رہا مگر یہ ظالم سماج کے ظالم لوگ کہ جب میں سگریٹ پیتا تھا تو کسی نے نہ پوچھا کہ بھیا کیوں پیتے ہو ؟ جس دن چھوڑے ہر ملنے والا پوچھتا تھا “خیر تو ہے شاہ صاحب، سگریٹ کیوں چھوڑ دیئے؟ “۔ زچ ہو کر میں دوبارہ پینے لگ گیا۔

یوں نہیں کہ آج تک کسی نے مجھے پیار سے سگریٹ نوشی ترک کرنے کی تلقین نہیں کی۔ مگر جس جس نوشی نے مجھے محبت کا واسطہ دے کر اپیل کی میں یہ سوچ کر مسترد کرتا رہا کہ سگریٹ چھڑوانے والی اگر خود چھوڑ جائے تو بندہ چرس پینے لگ جاتا ہے۔۔۔ اور خود کو اس حال تک میں نہیں پہنچانا چاہتا تھا کہ باقی عمر “جھولے لال” کرتا پھروں۔

جو سگریٹ نہیں پیتے وہ کون سی خضر کی حیات جیتے ہیں؟ دنیا کے ہر بشر کو آخر کوئی نہ کوئی بہانہ تو موت کو دینا ہے۔ سگریٹ کا بہانہ کیوں نہ ہو۔ انسان خلیہ بہ خلیہ تحلیل ہی تو ہوتا رہتا ہے۔ لمحہ بہ لمحہ مرتا رہتا ہے۔ یوں بھی آج جب ہر بشر غم و الم کی اپنی الگ داستان ہے دل بہلانے اور فکر کی شمع جلانے کو سگریٹ اکلوتا رفیق ہے۔سگریٹ سلو پوائزن ہے تو مجھے مرنے کی کونسا جلدی ہے۔ کوئلہ بننے سے پہلے انگارہ بن کے سلگنا چاہتا ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ:تمباکو نوشی صحت کے لئے نقصان دہ ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply