سب سے بڑا روگ ؟۔۔۔۔۔۔ اجمل شبیر

انسانی معاشرہ انسان کا ازلی و ابدی دشمن ہے۔جس دن انسان معاشرے کی بندشوں سے نجات حاصل کر لے گا،اسی دن سے وہ آزاد ،پرامن اور خوشحال ہوجائے گا ۔۔انسان جو ہے،وہ نہیں رہنا چاہتا،جو نہیں ہے ،ایسی زندگی کے پیچھے دوڑتاچلا رہا ہے۔آج کےانسانوں کے لئے میری نصیحت یہ ہے کہ وہ معاشرے کی نام نہاد اصولوں کو بھول جائیں،وہ بھول جائے کہ لوگ کیا کہیں گے؟ انسان اپنی انفرادی آزادی کا اعلان کردےاور معاشرے کا باغی ہو جائے۔بغاوت کا یہ مطلب نہیں کہ وہ معاشرے سے لڑنا جھگڑنا شروع کردے ۔یہ بھی وقت کی بربادی اور فضول حرکت ہے۔انقلابی معاشرے کے خلاف جنگ کرتا ہے،پہلے وہ معاشرے کا بوجھ اپنے ساتھ لئے پھرتا رہا ،پھر وہ انقلابی بہروپیہ بنکر اس بوجھ کے ساتھ جنگ کرتا ہے،یہ عقل مندی نہیں، بلکہ بے وقوفی ہے۔اس طرح وہ مسائل کا شکار ہوکر غم زدہ رہتا ہے۔
معاشرے کی پیروی کرنا یا اس کے ساتھ لڑنا بے وقوفی ہے۔ اس لئے کہتے ہیں کہ انقلابی حقیقی باغی نہیں ہوتے۔باغی وہ ہے جو معاشرے کی تمام بیماریوں کو سمجھتا ہے اور پھر آسانی اور سادگی سے اسے چھوڑ دیتا ہے۔باغی انتہائی چالاک انسان ہوتا ہے ،وہ اپنی زاتی زندگی اپنے خیالات، نظریات اور احساسات کے مطابق گزارتا ہے،اسے اس بات کی فکر نہیں ہوتی کہ معاشرہ اس کی زاتی زندگی پر کیا فرما رہا ہے۔ معاشرے پر غصہ ہے تو لڑنے کی بجائے لمبی واک کرلو،یوگا کرنا شروع کردو، باتھ روم میں چلے جاؤ اور خوب مسکراو، تکیئے سے ہاتھوں اور دانتوں کے ساتھ لڑائی کرلو، قہقہے لگاو یا پھر چیخو چلاو۔اس طرح اپنے آپ کو سکون اور آرام دو ۔معاشرہ تو چاہتا ہے کہ انسان اس کے ساتھ جنگ کرے تاکہ وہ انسان کو برباد کر سکے۔معاشرے کے نام نہاد زہین انسان جو کامیاب اور مشہور کہلاتے ہیں،حقیقت میں مصنوعی انسان ہیں۔بنیادی طور پر یہ زہین اور دانا نہیں ہیں ۔یہ نہیں جانتے کہ حساسیت کیا ہے۔یہ زندگی کی نعمتوں سے ناواقف ہیں۔
معاشرہ طاقتور انسانوں کو پسند کرتا ہے کیونکہ معاشرہ بنیادی طور پر بدمعاش اور وحشی ہے۔یہ کیسا معاشرہ ہے جہاں سیاستدان،جرنیل اور کند زہن انسان اربوں انسانوں پر حکمرانی کرتے ہیں؟جو انسان اس زہر آلود معاشرے سے نکل جاتا ہے ،وہی آزاد اور پرامن اور حقیقت میں خوش اور خوشحال ہے۔معاشرہ انسان کے اندر کے اعتماد کی تباہی کا نام ہے۔یہ کہتا ہے اپنے آپ سے محبت مت کرو ،لیکن دوسروں سے محبت کرو۔جب اپنے آپ سے محبت نہیں کرسکتے ،یا اپنے آپ سے محبت کا آرٹ نہیں جانتے،تو دوسروں سے خاک محبت کرو گے۔معاشرہ فرد کی اپنے آپ سے محبت کی کیفیت برداشت نہیں کرسکتا،وہ اسے خودغرضی کہتا ہے،وہ اسے نرگسیت کہتا ہے،محبت کا سفر ہی اس وقت شروع ہوتا ہے،جب ایک فرد پہلے اپنے آپ سے محبت کرتا ہے۔یہ بدمعاش معاشرہ انسان کو عقلمند نہیں بنانا چاہتا،کیونکہ یہ کسی بھی معاشرے کی سرمایہ کاری کے خلاف عمل ہے۔
اگر انسان دانا اور حقیقی زہین ہوجائے تو اس کا استحصال نہیں کیا جاسکتا،اگر وہ زہین ہوجائے تو اس کو روبوٹ نہیں بنایا جاسکتا،کیونکہ ایسا انسان ہر جگہ اپنی انفرادیت ظاہر کرے گا ۔وہ اپنی بغاوت کی خوشبو کو عام کرے گا ۔وہ آزادی سے زندگی گزارے گا۔آزادی اور انفرادیت زہانت اور عقلمندی سے نصیب ہوتی ہے۔کوئی معاشرہ آزادی نہیں دینا چاہتا۔انفرادیت معاشرے کے لئے خطرناک ہے۔انفرادیت معاشرے کی موت کا نام ہے۔انفرادیت پسند زہین انسان اسٹیبلشمنٹ ،طاقتور گروپ ،استحصال کرنے والوں اور امیروں کے لئے خطرناک ہوتے ہیں ۔انفرادیت پسند افراد معاشرے میں غلام بنکر نہیں زندہ رہ سکتے۔ہندوستان کی حکومت اور انتہا پسند سدھو کو پاکستان جانے سے روکتے رہے لیکن وہ ہنستا مسکراتا پاکستان اپنے دوست کی تقریب حلف برداری تقریب میں آیا اور مسکراتا اپنے وطن وآپس بھی پہنچ گیا۔سدھو نے ہندوستانی معاشرے اور مودی حکومت کی کسی بات کی طرف دھیان ہی نہیں دیا ۔ا سکی وجہ یہ ہے کہ سدھو انفرادیت پسند آزاد انسان ہے ۔
ہمارا تعلیمی نظام ،اسکول،کالجز اور یونیورسٹیاں انفرادیت کی دشمن ہیں ،یہ نام نہاد تعلیمی ادارے صرف غلام پیدا کرتے ہیں ۔ماضی کے پجاری انسان پیدا کرتے ہیں ۔تعلیمی نظام بظاہر تو کچھ لوگوں کو مشہور انسانوں میں بدل دیتا ہے،لیکن صرف نام ہی بڑے ہوتے ہیں ،انسان چھوٹے سے چھوٹا ہوتا جاتا ہے۔پھر ایک وقت آتا ہے انسان غائب ہوجاتا ہے اور غلام پیدا ہوجاتاہے۔جو صرف معاشرے کے اشاروں پر ناچنے کو اپنی کامیابی سمجھتا ہے۔بھائی لفظ محبت بھی محبت نہیں،ہم ان لفظوں کے پیچھے بہت سے مواقع ضائع کررہے ہیں ،یہ معاشرے کے پیدا کردہ الفاظ ہیں جو صرف انسان کو غلام بناکر رکھنا چاہتے ہیں۔
ایک فرد تمام معاشرے سے بہت زیادہ قیمتی اوراہم ہے۔معاشرے نے ہمیشہ انفرادیت کو تباہ کیا ہے،اس پر تشدد کیا ہے۔معاشرہ انفرادیت پر یقین کر ہی نہیں سکتا ۔معاشرے کو کلرکوں،سیاسی جماعتوں کے ورکروں جہالت،جاگیرداروں،اہلکاروں ،سول سرونٹس اور وزیروں کی ضرورت ہے ۔اسے آزاد اور انفرادیت پسند انسانوں کی ضرورت نہیں۔معاشرہ ہی ہے جو انسانوں کے اندر خواہشات انڈیلتا ہےتاکہ ان کےاندر سے حقیقی تخلیقی قوت غائب ہوجائے اور وہ غلام بن جائیں ۔خواہشات کے ساتھ آنا پیدا ہوتی ہےاور یہ آنا صرف فریب نظر ہے۔اس معاشرے میں بادشاہ سے بھکاری تک سب کے سب خواہشات اور دولت کے پجاری ہیں ۔انفرادیت کے قہقہے سے امن ،خاموشی اور تازگی پیدا ہوتی ہے جو کسی بھی صورت میں معاشرے کو قبول نہیں ۔کیا سدھو کی مثال ہمارے سامنے نہیں ہے؟انفرادیت پسند انسان کا قہقہہ اس کی روحانی صحت کے لئے بہت ضروری ہے۔یہ معاشرہ سنجیدہ انسانوں کو پیدا کرتا ہے اور یہی سنجیدگی ہے جس کی وجہ سے ہر طرف زہنی مریض نظر آتے ہیں ۔یہ معاشرہ صحت مند قہقہے کا بھی دشمن ہے۔ معاشرہ انسان کے اندر ایسی خواہشات پیدا کردیتا ہے کہ ہر انسان اسپیشل بننے کا خواب دیکھتا ہے۔دنیا میں سب سے زیادہ دولت مند اور مشہور بننا چاہتا ہے۔ڈگریا ں لینا چاہتا ہے۔جب تک خواہشات انسان کے اندر سے غائب نہیں ہوں گی وہ حقیقی تخلیقی فرد بن ہی نہیں سکتا ۔
معاشرہے انسان کو لالچی بناتے ہیں تاکہ لوگ مسائل میں رہے ۔لالچی وہ ہوتے ہیں جو ہمیشہ مستقبل کی سوچ دماغ میں ٹھونسے رکھتے ہیں ۔بس کچھ بن جاوں،یہ وہ خواہش ہے جو انسان کو زندگی کی حقیقی لزتوں سے محروم کردیتی ہے۔انسان وہ ہے جو آج سے پیار کرے ،لیکن ہم لوگ حال اور آج سے خوف زدہ ہیں اور مستقبل پر ہماری نطر ہے ۔ہمیشہ زندگی کے ہر لمحے کے ساتھ انسان کو سفر کرنا چاہیئے۔زندگی کے خوبصورت لمحات سے آگے یا پیچھے دوڑنے کی وجہ سے ہی انسان وحشیانہ کیفیت میں ہے ۔آزاد انسان زندگی کے ہر لمحے کے ساتھ رہتا ہے ،اس لئے پرامن اور پرسکون ہے ۔ آزاد انسان ہی خوشی ،سکون اور تخلیق کو انجوائے کرتے ہیں۔ ۔انسان ابھی تک غیر مہذب اس کی وجہ بھی یہ معاشرہ ہے۔
ایٹمی ہتھیار خود بخود نہیں چلیں گے۔معاشرےکے غلام انسان ہی دوسرے غلام انسانوں پر برسائیں گے ۔انسانیت اس جگہ پر آگئی ہے جہاں اب اس کے پاس زیادہ راستے نہیں ہیں ۔صرف دو راستے ہیں یا تو ہم معاشرے سے نجات حاصل کر لیں ،یا پھر انسانیت اجتماعی خودکشی کرلے۔انسانیت پرامن ہی تب ہوگی جب انسان معاشروں کی قید سے رہا ہوجائے گا۔معاشرے نے تمام آمروں اور بادشاہوں کو پیدا کیا ہے ۔انسان آزاد ہے ،اسے کیا ضرورت ہے کہ اسے کوئی بتائے کہ وہ کیا کرے اور کیا نہ کرے ؟انسانوں کو اجتماعی دماغ سے نکلنا ہوگا،معاشروں اور قوموں سے نکلنا ہوگا ۔اجتماعی دماغ سے سچائی تلاش نہیں کی جاسکتی،انفرادی اور آزاد دماغ ہی انسانیت کی میراث ہے ۔ہم اجتماع کی طرف بھاگ رہے ہیں ،اس لئے ہٹلر ،موسولینی پیدا ہورہے ہیں ،اس لئے دہشت گردی ہے ،اس لئے جنگیں ہیں ،اس لئے ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹمی بم پھینکے جاتے ہیں ۔
معاشرہ لوگوں کو تباہ کرکے انہیں احساس کمتری میں مبتلا کررہا ہے ۔یہ خوبصورتی کو تباہ کررہا ہے ۔ہم انسان نہیں زہنی مریض ہیں،غصے اور نفرت کی مشینیں ہیں ۔خواہشات کے پجاری ہیں ،ہم آدھے انسان ہیں جب کہ خوشیاں صرف مکمل انسان کا حق ہیں ۔جب ہم آزاد اور انفرادیت پسند ہو جائیں گے اور اجتماعی دماغ سے نجات حاصل کر لیں گے،پھر سب ٹھیک ہوجائے گا۔ معاشرے نے ہمیں تاریک روحوں میں تبدیل کردیا ہے ۔یہ دباؤ،پریشر اور غصہ سب معاشرے اور اجتماعی دماغ کی پیداوار ہیں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply