اخلاقی نفسیات (2)۔ اخلاقی نفسیات/وہاراامباکر

جو لوگ کسی موضوع کو پڑھنے میں عمر لگا دیتے ہیں، عام طور پر ایسا سمجھ لیتے ہیں کہ ان کی دلچسپی کا موضوع ہی سب کچھ ہے۔ اور صرف اسی کی نظر سے دنیا کی ہر شے کو سمجھا جا سکتا ہے۔ ہمیں ایسی کتابیں ملیں گی جہاں پر یہ بتایا جاتا ہے کہ انسانی تاریخ کو کسی شے نے کس طرح سے تشکیل کیا ہے۔ جنگ، کھانا پکانا، ممتا، جغرافیہ، سائنس ۔۔۔ حتیٰ کہ نمک کی نگاہ سے بھی انسانی تہذیب کی تاریخ سنائی جا چکی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ بھی ایک ایسی ہی کتاب ہے۔ اس کا مقدمہ یہ ہے کہ اخلاقیات وہ غیرمعمولی انسانی صلاحیت ہے جس نے تہذیب کا بننا ممکن کیا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ کھانا پکانا، ممتا، جنگ، جغرافیہ یا نمک ضروری نہیں تھے لیکن اس کتاب میں ہم انسانی فطرت اور تاریخ کا اخلاقی نفسیات کے زاویے سے جائزہ لیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
اور امید ہے کہ اس سفر کے آخر میں آپ کو انسانی زندگی کے دو بہت ہی اہم اور کئی بار متنازعہ) موضوعات کے بارے میں سوچنے کا موقع بھی ملے گا۔ مذہب اور سیاست۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا زمانہ طالبعلمی جس دور میں گزرا تھا، اس وقت عمارتوں میں یہ فقرہ عام لکھا ہوتا تھا، “یہاں مذہب اور سیاست پر بات کرنا منع ہے”۔ آج بھی بہت سی محفلوں میں ان موضوعات کو چھیڑنے سے احتراز کیا جاتا ہے۔ کیونکہ ایک بار ان پر بحث چھڑ جائے تو یہ روشنی سے زیادہ حرارت پیدا کرتی ہے۔
اور یہ دونوں موضوعات بنیادی طور پر ہماری اخلاقی نفسیات سے منسلک ہیں۔ اور اس نفسیات کو سمجھنا لوگوں کو قریب لا سکتا ہے۔ اس کتاب کا مقصد یہ ہے کہ ان موضوعات کو حرارت، تلخی اور غصے کی جگہ پر احترام، تعجب اور تجسس کی نظر سے دیکھا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہماری نوع میں یہ انتہائی پیچیدہ اخلاقی نفسیات پائی جاتی ہے۔ اور یہ وہ شے ہے جو ممکن کرتی ہے کہ ہم جدید معاشروں میں امن و سکون کی خوشگوار زندگی بسر کر سکیں۔ چند ہزار سالوں میں ہمارے معاشرے غیرمعمولی طور پر پرامن ہوئے ہیں۔
اور امید ہے کہ ہم اخلاقیات، مذہب اور سیاست پر بھی زیادہ پرامن اور خوشگوار طریقے سے بات کرنے کے قابل ہیں۔ کیونکہ بنیادی طور پر ہم اخلاقی نوع ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صحیح اور غلط، نیک و بد۔۔۔ ہم اپنے ڈیزائن میں اخلاقیات کا جنون رکھتے ہیں۔ اور یہ جنون نارمل انسانی کندیشن ہے۔ اور ایسا نہیں کہ یہ ہمارے معروضی اور معقول ذہن میں نمودار ہو جانے والی غلطی ہے بلکہ یہ ہماری بنیادی خاصیت ہے۔
کوئی اور جاندار ایسا نہیں جو ہماری طرح تعاون کے اس قدر بڑے گروپ بنا سکے۔ گروہ، جماعتیں، قبیلے، اقوام، ممالک۔ بڑی تعداد میں ایسے گروپ بنتے ہیں جن کو رشتہ داری یا جینیاتی ہم آہنگی کی گوند نہیں جوڑتی۔
اور ساتھ ہی ساتھ دوسری طرف، ہماری یہی خاصیت ان تعاون کرنے والے گروہوں کو ایک دوسرے سے تنازعے میں بھی رکھتی ہیں۔ بلکہ گروہوں میں کسی درجے کی کشیدگی تو شاید کسی معاشرے کے صحت مند اور توانا رہنے کے لئے ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے لڑکپن میں میری خواہش تھی کہ عالمی امن ہو اور تمام دنیا کے لوگ مل جل کر رہیں۔ لیکن اس موضوع کی سمجھ کے بعد آپ جلد ہی جان لیتے ہیں کہ غلط خواہش ہے۔
قابلِ عمل یہ ہے کہ مقابلے کے نظریات ایک توازن میں رہیں۔ جوابدہی کا پلڑا کسی ایک طرف نہ جھک جائے۔ سماجی رسہ کشی کا کانٹے دار مقابلہ ہمیں آگے بڑھاتا رہے۔ اور ایسے لوگوں کی تعداد کم سے کم ہوتی جائے جو یہ یقین رکھتے ہوں کہ صرف وہی حق پر ہیں اور اپنے نظریے کے غلبے کے لئے کوئی بھی راستہ اپنانا ٹھیک ہے۔ یہ خواہش زیادہ رومانٹک تو نہیں لیکن ایسی ہے جسے حاصل کیا جا سکتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply