نائلہ رند حادثہ، تعلیم کا قتل

دوہزار سترہ کی پہلی تاریخ تھی، سب دعاؤن اور التجاؤں میں مصروف تھے کہ “یا اللہ! اس سال کو سندھ اور پورے وطن عزیز کےلیے امن واشتی والا بنا، خوشیان عطا کر، دکھ، درد کی ہوائیں وطن کی سرحدوں کو بھی نہ چھوئیں، “لیکن کسے خبر تھی دو ہزار سترہ کی پہلی تاریخ کی ابتدا ہی رنج والم سے ہوگی، جی ہاں… قمبر شھر کی رہائشی طالبہ نائلہ نے اپنی چھٹی میں بھی پڑھائی کرنے کا سوچا، نیو ایئر اور سردی کی چھٹیان ختم ہونے سے تین دن قبل وہ سندھ یونی ورسٹی آئی، تاکہ اپنے تھیسس کا کام پورا کر سکے اور یونی ورسٹی کھلتے ہی اپنے کلاس فیلوز کے ساتھ کلاس کے کام میں جت جائے، یکسوئی کے ساتھ ہوم ورک بھی پورا کر سکے .تین دن قبل جب وہ اپنے گھر سے روانی ہورہی تھی اس کے بوڑہے والدین نے دعائیں دے کر رخصت کیا ہوگا اور دعائیں دی ہوں گی، والد بیٹی کو الوداع کر کے گویا ہوا ہوگا…. “بیٹی اب فکر کس چیز کی تم تو فائنل ائر میں ہو، ایک سال کے بعد تم اپنی پڑہائی مکمل کر لو گی، تمہیں جیسے اپنی دھرتی سے محبت ہے، تم صبح وشام اس دھرتی کے ان معصوم بچوں کا سوچتی ہو، ان کو پڑھانے کے خواب دیکھتی ….اب وہ تمہارے خواب پایہ تکمیل ہوں گے، تم ان بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرکے اپنے وطن عزیز اور سندھ دھرتی کو ترقی دلاؤگی …”
والد اسے اسٹاپ تک رخصت کرنے آیا ہوگا، والدہ نے اس پڑہاپے میں جہاں اسے خدمت کی اشد ضرورت ہے اس اس نے دوپٹے کے کنارے سے آنسو پونچ کر یہ امید باندھی ہوگی کہ میری بیٹے پڑھ کر میرا اور خاندان کا نام روشن کرے گی……!
اسے رخصت کر کے والدین نے رات کو نائلہ کے مستقبل کے بارے میں آپس میں سرگوشیاں بھی کی ہوں گی لیکن انہیں کیا پتا تھا کہ سال کا پہلا دن ان کے لیے قہر بن کر نازل ہوگا، ان کی ساری تمنائیں مٹی میں مل جائیں گی، ان کے خواب چکنا چور ہو جائیں گے، مستقبل کے سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے…….
نائلہ گھر سے نکل کر یونی ورسٹی پہنچتی ہے اور اپنی ایک کلاس میٹ کو فون کرتی ہے کہ” میں یونی پہچ گئی ہوں، کل پرسوں تھیسس جمع کرا دوں گی اور جب کلاس اسٹارٹ ہوگی ہم اپنی پڑہائی پر پوری توجہ دیں گے. لیکن تین بجے اچانک خبر پھیلتی ہے کہ نائلہ کی پھندہ لگی لاش کمرہ نمبر چھتیس سے ملی ہے …اس اندوہناک خبر کا سن کر انتظامیہ فورا جائے وقوعہ پر پہنچ جاتی ہے،پولیس کو جیسے اطلاع ملتی ہے وہ اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ روڈ پر سائرن بجا کر لوگوں کو خوف وہراس میں دھکیل کر ایسے تیزی سے رواں ہوتی ہے جیسے کسی ملک کو فتح کرنے جارہی ہے، پولیس مقام پر پہنچ کر اپنے قدیم طریقے سے بیان دیتی ہے کہ “لاش ہم نے وصول کر لی پوسٹ مارٹم کے ہوتے ہی رپورٹ جاری کی جائے گی “…….والدین کو جیسے اطلاع ملتی ہے ……وہ ہوش وہواس کھو بیٹھتے ہیں…..ہسپتال پہنچ کر لاش وصول کرتے ہیں…اور آنسو کا سمندر بہا کر لاش زمیں حوالے کرتے ہیں…کلاس فیلوز ایک دوسرے کو فون کر کے دکھ درد بانٹتے ہیں……یوں یہ کیس بھی فائلوں کی نذر ہوجاتا ہے….
پولیس کے بیان مطابق واقعہ خودکشی لگتا ہے، ….پوسٹ مارٹم کی رپورٹ بھی آجائے گی…….تیجھا چالیسواں بھی ہو جائےگا……مذمتی بیان بھی نشر کیے جائیں گے…. نائلہ کی یاد میں شمعیں بھی روشن کی جائیں گی ….کلاس میٹ اس کے تذکرے بھی کریں گے…..لیکن اب حاصل کچھ نہ ہوگا..وطن عزیز ایک بھادر ذہین لڑکی سے محروم ہوگیا…..یونی ورسٹی کی دیواریں اب نائلہ کو یاد کریں گی ….چمن، کینٹین، لائبریری …کتابیں….محفل ومجمعے اس کی اس سانحے پر نوحہ کناں نظر آئیں گے….لیکن…یہ واقعہ کیوں پیش آیا….ایسے واقعات کے پیچھے کیا محرکات ہوتے ہیں…کیا اتنی ذہین سمجھدار پڑہاکو لڑکی کیسے خودکشی کر سکتی ہے….اسے ایسا کیا دکھ درد پیش آیا جو وہ کسی کو بھی بتا نہ سکی…..پہلے تو یہ کیس خودکشی معلوم نہیں ہوتا …جس چار پائی پر کرسی رکھ کر پنکھے میں دوپٹہ باندا گیا ہے وہ چار پائے ایسی ہے کہ اس پر اس طرح کرسی رکھ کر کھڑا ہونا اور اپنا بیلنس برابر رکھنا انتہائی مشکل معلوم ہوتا ہے …کمرے میں ہر چیز معمول کے مطابق ہے….
یہ خودکشی ہے یا قتل…کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا….
یہاں چند سوالات ہیں جن کے لیے یونی ورسٹی کی انتظامیہ جوابدہ ہے….
¹چھٹیوں میں ہاسٹل کیوں کھلا تھا …؟انتظامیہ نے طالبات کے ہاسٹل کی سیکورٹی کے حوالہ سے غفلت کیوں کی…؟ نائلہ کو ایسی کیا مجبوری تھی کہ وہ ہاسٹل میں رہنا چاہتی تھی نیز اسے اکیلے کمرے میں کیوں رہنے دیا گیا …….؟
ہمارا حکومت سے پر زور مطالبہ ہے کیس کی شفاف اور مکمل تفشیش کرائی جائے، جی آئی ٹی تشکیل دی جائے… پوسٹ مارٹم کی صحیح خبر عوام تک پہنچائی جائی …مجرمین کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے….انتظامیہ کی نااھلی پر اسے فوری برطرف کیا جائے…والدین کے کہنے کے مطابق ایف آئی آر درج کی جائے…..ان کی اخلاقی اور مالی مدد کی جائے…اگر یہ کیس بھی فائلوں کی نذر ہوگیا…تو قاتل جری ہوجائینگے اور ایسے واقعات ہرروز ہوتے رہیں گے…… یہ قتل صرف نائلہ کا قتل نہیں تعلیم کا قتل عام ہوگا میری تمام پڑھنے والوں سے گذارش ہے کہ اِس اندوہناک واقعہ پہ اپنی کوشش مطابق آواز اٹھائیں تاکہ انصاف کا حصول ممکن ہوسکے.

Facebook Comments

نعیم الدین
لکھنے پڑہنے والا ایک ادنی طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply