رنگ اکثر بولتے ہیں۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

لگ بھگ نصف صدی پہلے جب میں نے اردو میں “رن۔آن۔لائنز” کا چلن شروع کیا تو اس کی بھرپور مخالفت ہوئی۔ یہ کیسے ممکن ہے، کہا گیا،کہ کسی مصرع کو کھینچ تان کر اگلی سطر میں ضم کر دیا جائے۔ پھر آہستہ آہستہ نہ صرف مخالفت دور ہوئی، بلکہ ،ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی سب اس رو میں بہتے چلے گئے اور آج کوئی یاد تک نہیں کرتا کہ اس کی شروعات کس نے کی تھی۔ یہی بات موضوعات کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے۔ “من و تو” کی فرسودہ روایت نے غزل کے حصار سے تجاوز کرتے ہوئے نظم کو بھی ایک مدت تک اپنا گرویدہ بنائے رکھا۔ پھر آہستہ آہستہ موضوعات میں کچھ تبدیلی در آئی لیکن کچھ ایک کو غیر شاعرانہ سمجھ کر ہاتھ لگانے سے بھی گریز کیا گیا۔ یہی موضوع یعنی “رنگ” اور ان کی تمثیلی اہمیت کو آج تک کسی شاعر نے نظم کے موضوع کے طور پر برتا ہے؟ میری یہ نظم نصف صدی پرانی ہے۔ اسے دیکھیں اور پھر خود سے ہی اس سوال کا جواب طلب کریں۔ ستیہ پال آنند

رنگ اکثر بولتے ہیں
رنگ اکثر بولتے ہیں
دُھول سا مٹیالا، ہلکا زرد کہتا ہے ۔۔۔
خزاں آنے کو ہے۔۔۔
تم عمر کے شاداب موسم جی چکے ہو
رُت بدلنے تک تمہیں رہنا ہے، لیکن
رُت بدلتے ہی
شجر سے خانماں، برباد
اُجڑے برگ کی مانند
اُڑ جانا ہے پت جھڑ کی ہوا میں

سبز کہتا ہے۔۔۔
نہیں، یہ جھوٹ ہے
میری طرف دیکھو، میں اب بھی لہلہا کر
آنے والے موسموں کی یہ بشارت دے رہا ہوں
زندہ رہنے کا قرینہ سیکھ کر زندہ رہو
پت جھڑ کا کیا ہے
آئے گی جب، دیکھا جائے گا۔۔
ابھی جی لو، کہ جینا زندگی ہے

پھول سا ہلکا گلابی رنگ کہتا ہے۔۔۔
یہ دونوں ہی غلط ہیں
زندگی کا رنگ میں ہوں
تازہ و شاداب گُل کا، عارض و لب کا
محبت میں اٹھی پہلی تمازت کا
جو رخساروں پہ رہ رہ کر دہکتے
آگ کے پھولوں کی عادت جانتی ہے
صبح کی لالی کا
بچے کے ملائم گال کا
اور پیار کے اقرار جیسا
اور ان وعدوں کا بھی جو آج تک قائم ہیں
اصلی رنگ میَں ہوں

Advertisements
julia rana solicitors

رنگ اکثر بولتے ہیں
اور میں بیتی رُتوں کے
بولتے رنگوں کی بارش میں کھڑا
سب سُنتا رہتا ہوں
کہیں کچھ سچ بھی ہے
کچھ جھوٹ بھی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1982

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply