شہید۔۔معاذ بن محمود

مجھے قبر سے نکلے کچھ ہی دیر ہوئی ہے۔ دنیاوی زندگی کے آخری لمحات کے بعد مجھے اب ہوش آیا ہے تاہم میری موجودگی سے تمام زندہ لوگ بےخبر ہیں۔ شاید تھوڑی دیر میں فرشتے مجھے بہتر حوروں کے پاس لے جائیں؟

“فکر نہ کرو، تمہاری بیوی اور تینوں بیٹیوں کی کفالت ہم کریں گے۔ یہ پچاس ہزار روپے ابھی پکڑو، اس کے علاوہ ہر ماہ پچیس ہزار روپے تمہارے گھر ہر یکم حاجی اصغر پہنچایا کرے گا۔شہید کبھی مرتا نہیں، آخرت تک وہ اپنے قتال کا انعام پاتا ہے”۔

پہلے کی طرح اس دن بھی قاری اظہر نے مجھے یقین دہانی کروائی۔ جمعرات کی رات آخری بار انہوں نے مجھ سے یہی وعدہ دہرایا اور میری آنکھیں پرنم ہو گئیں۔ بھلا آخرت سنوارنے کا اس سے بہتری موقع کیا ہوسکتا تھا؟ مجھے پیسے کا رتی برابر لالچ نہ تھا۔ ہاں یہ بات ٹھیک ہے کہ مہینے میں کئی دن مجھے فاقے کرنے پڑتے مگر صرف ان دنوں جب میں ریڑھی لگانے کی بجائے قاری اظہر کے درسِ خاص میں مہمان ہوتا۔ جہاد سے متعلق ان دروس میں قاری اظہر وہ بیان دیتے کہ لہو کھول اٹھتا۔ پیسہ نہیں، یہ تو دین کی سربلندی تھی جس کی خاطر میں شہید ہونے کو تیار تھا۔ شہادت کا مرتبہ کس قدر بلند ہوتا ہے یہ بات قاری اظہر نے مجھے چند ماہ پہلے سمجھائی تھی۔

شہید ہمیشہ زندہ ہوتا ہے۔ جیسے اس وقت میں ہوں؟ شاید ہاں؟

قاری اظہر کہتے تھے کہ ہمارے علاوہ تمام مسالک کے لوگ کافر ہیں۔ جانے کیوں ان کفار کی عبادت گاہ بالکل ہماری مسجد جیسی ہی ہوتی۔ قاری اظہر انہیں گھوڑا پرست، نبی پرست وغیرہ بھی کہتے تھے۔ انہوں نے کئی لیکچر دیے جس میں انہوں نے ان کافروں کی کفریہ حرکات کا عذاب بتایا۔

“مگر قاری صاحب یہ تو ویسا ہی کلمہ پڑھ رہے ہیں جیسا میں پڑھتا ہوں؟”۔

قاری صاحب اکثر میرے سوال سن کر غصہ کیا کرتے۔ پر وہ قاری صاحب ہیں، صاحب علم، مجھے اپنے سوال سوچ کر کرنے چاہئیں۔ میں ہمیشہ یہی سوچ کر معافی مانگ لیا کرتا۔ ایسے میں قاری صاحب بڑے پیار سے مجھے کہتے کہ تجھ سے مجھے جنت کی خوشبو آتی ہے۔ مجھ جیسے دنیا کے ٹھکرائے ہوئے ریڑھی فروش کو کسی طرح جنت مل جائے، اور کیا چاہیے  تھا مجھے؟

میں نے کئی ایمان افروز واقعات سننے کے بعد شہید ہونے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ کرتے ہوئے مجھے اپنی بیوی اور تینوں بیٹیوں کا خیال بارہا کمزور کرتا رہا۔ میں یہ بات قاری صاحب کو بتانا چاہتا تھا مگر پھر خیال آتا کہ وہ میرے اس خوف کو کہیں پیسے کی لالچ نہ سمجھ بیٹھیں۔ قاری صاحب ایک ولی اللہ ہیں۔ میرا خوف سمجھ گئے اور مجھے خوب اچھی طرح یقین دلایا کہ میرے خاندان کی کفالت ان کا ادارہ کرے گا۔ روبینہ، میری بڑی بیٹی اب جوان ہوچکی تھی۔ قاری صاحب کے دیے پچاس ہزار روپے میں نے روبینہ کی ماں کے ہاتھ میں رکھ دیے کہ اس کے لیے رشتہ دیکھ۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ میں حق کے راستے میں جان دینے جا رہا ہوں۔

میرے آخری لمحات اس قدر شاندار نہیں تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کل کس طرح میں نے غیر مسلک کی مسجد میں اللہ اکبر کی آواز کے ساتھ خودکش جیکٹ کا بٹن دبایا تھا۔ مجھے تعداد تو معلوم نہیں مگر کم سے کم تیس سے چالیس کافر تو ضرور جہنم واصل ہوئے ہوں گے۔ الحمد للہ!

یہ لوگ مجھے دفنا کر اب واپس گھروں کی جانب گامزن ہیں۔ میں کچھ دیر قاری اظہر کے ساتھ چلنا چاہتا ہوں، میرا محسن جس نے مجھے جنت پانے کا مختصر ترین طریقہ بتلایا۔ میں قاری صاحب کی مسجد جانا چاہتا تھا مگر یہ قاری صاحب میرے گھر کی جانب کیوں چل رہے ہیں؟ یقیناً روبینہ کی ماں کو تسلی دینے جارہے ہوں گے کہ تمہاری کفالت اب ہماری ذمہ داری ہے۔ قاری صاحب کس قدر عظیم شخص ہیں۔ جانے کتنے ہی شہداء کے گھرانوں کی کفالت کرتے ہوں گے؟ جانے کتنے شہیدوں کے جنازے کے بعد یوں تسلی دینے ان کے گھر جاتے ہوں گے؟

“صغراں بی بی، دروازہ کھولو”۔

قاری اظہر نے میرے گھر کے دروازے پر دستک دیتے آواز لگائی۔ دروازہ کھلتا ہے اور اندر سے روبینہ کی ماں دروازہ کھولتی ہے۔ اس کی آنکھیں رو رو کر سوج چکی ہیں۔ جن آنکھوں کو میں ساری زندگی بھیگنے سے بچاتا رہا وہ آج میری موت پر کس قدر غمگین ہیں۔ مگر روبینہ کی ماں کو سمجھنا ہوگا کہ اللہ کی راہ میں مرنے والے زندہ ہوتے ہیں۔ جیسے شاید میں زندہ ہوں۔ قاری اظہر اسے ابھی سمجھائیں گے۔ سمجھ جائے گی۔۔

قاری صاحب اندر داخل ہوتے ہیں۔ روبینہ دوپٹہ اوڑھے خاموش بیٹھی ہے۔ میری لاڈلی روبینہ جسے میں نے بچپن سے انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا، جس کے تحفظ کی قسمیں میں نے صغراں سمیت دنیا کے سامنے ہمیشہ کھائیں۔ اب کیا ہوگا روبینہ کا؟ یقیناً قاری صاحب میری روبینہ کا خیال بیٹیوں کی طرح کریں گے۔

“صغراں، اب تک تو تم جان چکی ہوگی کہ تمہارا شوہر عبداللہ ایک خودکش حملہ آور تھا جس نے آج دوران نماز جمعہ غیر مسلک کی مسجد میں خودکش دھماکہ کیا اور اپنے ساتھ ساتھ پچاس دیگر افراد کو ہلاک کیا”۔

ہلاک؟ یہ قاری صاحب کیا کہہ رہے ہیں؟ “شہید قاری صاحب شہید۔ میں شہید ہوں۔ یہ دیکھیں میں زندہ ہوں۔ سب سن رہا ہوں۔ آپ شہید کہیے مجھے ہلاک نہیں”۔

میں اپنی پوری قوت سے چیخا مگر میری آواز کسی نے نہیں سنی۔

“میں جانتا ہوں کہ عبد اللہ کی ریڑھی کے سوا تمہارے نان نفقے کا کوئی بندوبست نہیں۔ ایسے میں یقیناً مجھ پر فرض ٹھہرتا ہے کہ میں تمہارے خاندان کی کفالت کا کوئی طریقہ ڈھونڈوں۔ آخر کو تمہارا خاندان میرا ہمسایہ بھی ہے اور ہمسائے کے اللہ رب العزت نے خوب حقوق رکھے ہیں”۔

قاری اظہر کس قدر عظیم انسان ہیں۔ اپنا وعدہ نبھا رہے ہیں۔ ورنہ کون سی مشکل بات ہے اگر وہ میرے کنبے کو بھول جاتے؟

“میرے پاس تمہارے لیے ایک پیش کش ہے، اور چونکہ تمہارے پاس تین جوان بیٹیوں کو پالنے پوسنے کا نہ کوئی طریقہ ہے نہ ٹھکانہ، لہذا بہتر ہے تم میری پیش کش پر سنجیدگی سے غور کرو”۔

پیش کش؟ ایسی تو کوئی بات نہیں ہوئی تھی ہمارے درمیان۔ یہ قاری صاحب کیا کہہ رہے ہیں؟ یقیناً کوئی بھلائی کی بات ہی ہوگی۔

“میں علاقے کا ایک معزز مولوی ہوں، پانچ وقت کا نمازی، مسجد کا امام، شہر میں لوگ مجھے جانتے ہیں۔ تم ایسا کرو کہ اپنی روبینہ کو میرے نکاح میں دے دو، میں بدلے میں تمہاری اور بچیوں کی کفالت کرتا رہوں گا۔”

کیا؟ نکاح؟ میری معصوم روبینہ کا نکاح تجھ دغاباز دھوکے باز کے ساتھ؟ قاری اظہر خدا کا خوف کر، میں نے تو تیرے کہنے پر کافروں پہ خود کش حملہ کیا۔ تو مجھے مروا کر میرے ہی گھر میں اپنی نواسی کی عمر کی میری روبینہ پہ نیت خراب کر رہا ہے؟ دھوکے باز تو نے مجھ سے کفالت کا وعدہ کیا تھا ناں؟ قاری ایسا مت کر۔ میں تجھے چھوڑوں گا نہیں۔ مت کرنا یہ ظلم۔ خدارا مت کیجیو۔ دیکھ تجھے خدا رسول کا واسطہ۔

میں گلہ پھاڑے چیخ رہا تھا مگر میری آواز کوئی سن نہیں پارہا تھا۔

“صغراں ایسا مت کرنا۔ خدا کے لیے میری بیٹی کی زندگی تباہ مت کرنا۔ صغراں تو فاقے کر لے مگر یہ نہیں۔ اللہ کا واسطہ۔ صغراں۔۔۔”

صغراں نے چند لمحے سر جھکانے کے بعد روبینہ کا آنسووں سے تر چہرا دیکھا اور سوالیہ نگاہوں سے اس کی جانب گھورنے لگی۔

“اماں، کہیں نہ کہیں ابا کی روح یہ سب دیکھ رہی ہوگی۔ مجھے قبول ہے۔ ابا نے پچاس معصوم گھرانے تباہ کر ڈالے۔ ایک گھرانہ ابا کا تباہ ہوجائے تو کیا ہے؟ ابا کے گناہ کی سزا میں بھگتنے کو تیار ہوں۔ مجھے قبول ہے۔ شاید قاری کے بستر میں رہ کر تمہیں اور بہنوں کو عزت دار زندگی مل جائے۔ شاید ابا کی سزا یہی ہو کہ وہ اپنی بیٹی کی زندگی قاری کی ہوس کے ہاتھوں بجھتی دیکھیں۔ مجھے قبول ہے اماں۔ مجھے قبول ہے۔”

اب یہاں مزید رہنا میرے لیے ممکن نہیں تھا۔ میں قبرستان کی جانب چل دیا۔

مگر یہ کیا؟ میری قبر جل رہی ہے۔ یہ پہرے دار کون ہے؟ ارے سنو، یہ میری آخری آرامگاہ ہے۔ مجھے یہاں سے  جانے دو۔ نہیں چاہیے  مجھے یہ زندگی۔ یہ میری لحد کو کیا ہوا؟ یہ آگ کیوں لگا رکھی ہے؟ بجھاؤ اسے۔ میں شہید ہوں۔ مجھے زندہ رہنا ہے حساب کے دن تک۔

میرا شور و غل سن کر پہرے دار میری جانب متوجہ ہوکر خوفناک آواز میں گویا ہوا۔

“واقعی تم شہید ہو۔ جس شہادت کا انتخاب تم نے کیا اس کے بعد کی زندگی بھی اسی طرح کی ہے۔ تمہارے پاس دو ہی راستے ہیں۔ یا جہنم کی اس آگ میں ابھی اسی وقت خود کو جھونک دو یا پھر اپنے گھر لوٹ جاؤ اور یوم آخرت تک وہیں رہو اور دیکھو کہ کس طرح تم نے اپنی نسل تباہ کر ڈالی۔ تم زندہ رہو گے۔ قیامت تک۔”

پہرے دار کی بات سن کر میں نے بوجھل قدموں کے ساتھ واپس اپنے گھر کا رخ کیا۔ روبینہ کا نکاح ہوچکا تھا۔ باقی کی زندگی اس نے قاری اظہر کی غلیظ صحبت میں گزارنی تھی۔ میں نے قیامت تک اپنی نسل کو ذلیل و خوار ہوتے دیکھنا ہے۔ میرے کانوں میں قاری اظہر کی آواز گونج رہی تھی۔

“شہید آخرت تک اپنے قتال کا انعام پاتا ہے۔ شہید کبھی مرتا نہیں”۔

Advertisements
julia rana solicitors

شہید جو ہمیشہ زندہ ہوتا ہے۔ جیسے اس وقت میں ہوں؟ شاید ہاں؟

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply