نعیم حيدر کی تحاریر
نعیم حيدر
سوچنے، محسوس کرنے، جاننے اور جستجو کےخبط میں مبتلا ایک طالبِ علم ۔۔

متشابہہ

کمرے کے وسط میں پڑی میز پر ایک گلدان، کیلنڈر اور ایش ٹرے پڑی ہے۔ دروازے کے دائیں جانب پلنگ ہے جس کے اوپر کھڑکی ہے۔۔ دروازے کے سامنے ایک صوفہ ہے جس پر پرانے میگزین بکھرے پڑے ہیں۔صوفے کے←  مزید پڑھیے

کاش ہم اپنی زندگی جیتے

وہ گڈریا ہے۔۔۔میں ادیب! میں کتابوں کی دنیا سے اکتا جاتا ہوں جب اسکی دنیا دیکھتا ہوں۔بکریاں ہانکتا بے نیاز، پرسکون چرواہا۔۔ میں اس کی آنکھوں میں رشک دیکھتا ہوں۔۔۔مجھ جیسا بننے کا شوق گڈریے کی آنکھ میں زندہ ہے←  مزید پڑھیے

مولوی صاحب اور فلم

شہر کے وسط میں جامع مسجد کے دروازے کے سامنے عادل کا چائے کا ہوٹل ہے۔اس کا ہوٹل خوب چلتا ہے۔اس نے ہوٹل کی دیوار پر پچاس انچ کی ایل ای ڈی لگا رکھی ہے جس پر سارا دن لوگ←  مزید پڑھیے

“صلہ”

وہ سخت معاشی بدحالی سے دوچار تھا۔۔پچھلے دو ماہ سے مزدوری نہیں ملی تھی۔ مزدور تھڑے پر سارا دن گزارنے کے بعد صرف بارہ روپے جیب میں ڈالے بوجھل قدم اٹھاتا وہ بازار سے گزرا۔۔۔۔سڑک کی نکڑ پر اسکی نظر←  مزید پڑھیے

“آگ، آگہی”

آگ اور آگہی اس نے پہاڑ کی بلند چوٹی پر مچ بنا رکھا ہے۔۔۔ آگ کے شعلوں کی پیلاہٹ سے اسکی آنکھیں چندھیا رہی ہیں۔پہاڑ کےداہنی طرف نیچے گہرائی میں جنگل کا لامتناہی سلسلہ ہے۔۔۔ وہ شاید کبھی اسی جنگل←  مزید پڑھیے

سرائیکی کلچر:پاکستان کا ایک خوبصورت رنگ

سرائیکی کلچر پاکستان کے ثقافتی منظر نامے پر ایک نمایاں اور خوبصورت رنگ ہے۔سرائیکی ثقافت کا مسکن دریائے ستلج کے کناروں سے کوہ سلیمان کی چوٹیوں تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کی تاریخ چالیس ہزارسال پرانی تہذیب انڈس سویلائزیشن سے←  مزید پڑھیے

“کتے اور ہم”

صبح صبح واک کے لئے جانا تازہ ہوا سے پھیپھڑوں کی ٹکور، ابھرتے سورج کی تمازت سے آنکھوں کی ٹھنڈک اور اندرونی و بیرونی خامشی سے لطف اندوز ہونے کا باعث ہوتا ہے۔صبح جب میں واک کے لئے نکلتا ہوں←  مزید پڑھیے