مولوی صاحب اور فلم

شہر کے وسط میں جامع مسجد کے دروازے کے سامنے عادل کا چائے کا ہوٹل ہے۔اس کا ہوٹل خوب چلتا ہے۔اس نے ہوٹل کی دیوار پر پچاس انچ کی ایل ای ڈی لگا رکھی ہے جس پر سارا دن لوگ فلمیں دیکھتے ہیں۔ہندی، چائنیز، انگریزی اور کبھی کبھار پاکستانی۔رات دس بجے کے بعد والے شو بالغ افراد کے لئے ہوتے ہیں۔عادل کو فلموںکی کافی جانکاری ھے۔ھارر، رومانوی، تاریخی، آرٹ اور پورن ہر طرح کی فلموں کا وسیع علم ہے۔عادل پانچ وقت کا نمازی ہے۔جیسے ہی اذان ہوتی ہے وہ دکان چھوٹے لڑکے کو سونپ کر مسجد کا رخ کرتا ہے۔اس کا ماننا ہے کہ پنجگانہ نماز کی بدولت ہی اس کے کاروبار میں برکت ہے۔
یوں عادل کا سارا دن فلموں میں اور پانچ مرتبہ کچھ منٹ مسجد میں گزرتے ہیں۔مگر تمام لوگوں کا ماننا ہے کہ عادل ایک نیک اور نمازی پرہیزی آدمی ہے۔مسجد کے امام کا نام مولوی ارشد ہے۔پچیس سال کا خوب رو باریش نوجوان۔تازہ تازہ درس نظامی کر کے آیا ہے اور مسجد میں بلامعاوضہ امامت و تدریس سنبھالی ہے۔نماز پڑھانے اور بچوں کو درس دینے کے بعد مسجد سے ملحق ہجرے میں جا بیٹھتا ہے اور کتابوں میں کھو جاتا ہے۔کل عصر کی نماز کے بعد مولوی صاحب کا چائے پینے کا من ہوا تو مولانا صاحب کے دل میں خیال آیا کیوں نا آج اپنے عادل کے ہوٹل سے چائے پی جائے۔مسجد کے صدر دروازے پر ہوٹل ہے۔چنانچہ وہ ہجرے کی کواڑ بھیڑ کر چپل پہنے ہوٹل میں داخل ہوئے۔تمام فلم بین جو پیشاب روکے، آنکھیں پھاڑے فلم میں مست تھے، مولوی صاحب کو دیکھ کر یوں چونکے جیسے کوئی خلائی مخلوق ہوٹل میں داخل ہو گئی ہو۔قاری صاحب نے چائے کا کہا اور ٹی وی پر لگی فلم دیکھنے لگ گئے۔تیسری آنکھ سے دیکھنے والے کو صاف معلوم پڑتا تھا کہ اس وقت ہوٹل میں مجرم فقط ایک ذات تھی یعنی “مولوی ارشد”
چائے پینے اور پندرہ بیس منٹ فلم دیکھنے کے بعد قاری صاحب ہجرے میں لوٹ آئے۔نماز مغرب کی اذان دے کر مولوی صاحب مصلیٰ امامت تک تشریف لائے تو مقتدیوں کے چہرے یوں بدلے ہوئے تھے جیسے کوفہ والوں کے مسلم بن عقیل کو دیکھ کر بدلے تھے۔اطراف میں بات پھیل چکی تھی کہ مولوی صاحب فلمیں دیکھتے ہیں اور ان کے پیچھے نماز جائز نہیں۔مولوی صاحب کی چھٹی کروا دی گئی۔
عشاء کے وقت جب مولوی ارشد صاحب اپنا سامان سمیٹے مسجد سے نکل رہے تھے تو عادل کے ہوٹل میں بیٹھے چاچے شریف نے عادل کو پکارتے ہوئے کہا
“اچھا کیا مولوی کی چھٹی کروا دی۔ایسے مولویوں کی وجہ سے اسلام بدنام ہے اور مسلمانوں کی عزت نہیں ہے۔”
عادل نے ہاں میں ہاں ملائی اور سب دوبارہ فلم میں گم ہو گئے۔۔۔۔

Facebook Comments

نعیم حيدر
سوچنے، محسوس کرنے، جاننے اور جستجو کےخبط میں مبتلا ایک طالبِ علم ۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply