رالف رسل-انگریز اُردو دان۔۔/تحریر-پروفیسر عامرزرین

کسی بھی مُلک و قوم یا علاقہ کی زبان وہاں کی تہذیب و تمدن کا ایک اہم جُز تصور کی جاتی ہے۔لسانی اعتبار سے زبان کسی بھی معاشرے میں ایک فرد کے دوسرے فرد سے گفتگو ،رابطہ اور طبقہ کی تعمیر و ترقی کا ایک اہم عنصر سمجھی جاتی ہے ۔اُردو زبان ہماری قومی زبان ہے۔ اس کی لسانی اہمیت اپنی جگہ لیکن اُردو دُنیا بھر میں ہماری پہچان بھی ہے۔ اُردو کی ترویج و ترقی کے لئے جہاں مقامی دانشوروں اور محققین نے قابل ِ ذکر خدمات سر انجا م دی  ہیں ،وہیں غیر مقامی یا غیر مُلکی دانش وروں کی خدمات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ زیرِ نظر تحریر بھی ایک ایسے ہی غیر مُلکی عالم ، دانشور، محقق اور ماہر تعلیم پروفیسر رالف رسل (1918-2008) کے بارے میں ہے۔ کوشش کی گئی ہے اُردو زبان کے لئے اُن کی خدمات کا احاطہ کیا جائے۔

‘‘ پروفیسر رالف رسل’’ 1918ء میں کرک ہیمرٹن، برطانیہ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اُردو زبان کی ترویج اور ترقی کے لئے وقف کردیا۔اور اسی لئے اُردو کے لئے ان کے کام اور ترقی کے لئے اُٹھائے گئے اقدامات کے صلے میں انہیں ‘‘بابائے اُردو برطانیہ’’ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔‘‘

“پروفیسر رسل” سولہ برس کی عمر میں کیمونسٹ تحریک سے وابستہ ہوگئے اور اپنی زندگی کے آخری ایام تک خود کو کیمونسٹ تصور کرتے رہے۔اس دوران اس تحریک سے وابستہ لوگوں پر بد عنوانی کے الزامات لگتے رہے۔ کیمونسٹ تحریک کو زوال کا سامنا بھی کرنا پڑا۔متحدہ سویت یونین بھی ٹوٹ گئی۔ رسل کے مطابق،‘‘ انسانی اقدار کو سمجھنے اورخدمت کرنے کا بہترین ذریعہ کیمونسٹ تحریک ہی تھی۔”

اپنی اوائلِ جوانی سے ہی وہ کیمونزم کے نظریات کا کافی حد تک مطالعہ کر چکا تھے۔اُنہوں نے سینٹ جان کالج، کیمرج میں قیام کے دوران اس نظریہ کے بارے میں کُتب اور خطوط کا مطالعہ کیا تھا۔اپنے کالج کی تعلیم کے بعد چھ برس کا عرصہ اُنہوں نے فوجی ملازمت میں گزارا۔اُنہوں نے اپنی فوجی ملازمت کے ساڑھے تین برس برٹش رائل آرمی میں ہوتے ہوئے ہندوستان میں وقت گزارا۔
اُس وقت برٹش رائل آرمی میں انگریزی کے بعد اُردو زبان کا استعمال زیادہ تھا۔اُن کے لئے مسئلہ تھا کہ وہ اُردو زبان کیسے سیکھیں۔اُن کے خیال میں دو طریقے ہوسکتے تھے کہ یا تو وہ مقامی ساتھی فوجیوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ اُردو میں گفتگو کریں یا پھر اُردو مسودے پڑھیں ۔ اُنہوں نے کارل مارکس اور لینن کے اُردو تراجم پڑھ کر اُردو زبان میں کافی مہارت حاصل کی۔

اس تمام عرصہ میں اُن کے لئے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ اُردو ادب تک رسائی حاصل کرپاتے۔اپنی فوجی ملازمت کے بعد جب اُنہوں نے اوریئنٹل کالج آف لندن میں داخلہ لیا تو اُنہوں نے اپنے شوق کے تحت اُردو زبان میں ڈگری حاصل کرنے کا سوچا۔ اور رسل اس میں کامیاب ہوا۔ اُردو اور معاون زبان کے طور پر سنسکرت میں ڈگری حاصل کرنے بعد اُسے ایک سال کے لئے لیکچرر کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع ملا۔ رسل یہ موقع نہ گنوایا اوراسے بخوبی قبول کر لیا۔

اپنی ملازمت کے دوران چھٹیوں میں وہ ہندوستان اور پاکستان کے دورے پر آئے۔ علی گڑھ میں قیام کے دوران اُنہیں زیادہ وقت اُس وقت کے علماء، ادباء اور دانشوروں کے ساتھ گذرا۔ رسل کی اُردو میں کافی بہتری آئی۔علی گڑھ میں اُن کی دوستی جناب خورشید اسلام سے ہو گئی۔

‘‘ پروفیسر رسل’’ تقریباً تین برس اپنے دوست خورشید کے ساتھ بطور غیر مُلکی لیکچرر کی حیثیت سے کام کیا۔انہوں نے متفقہ طور پر یہ طے کیا کہ وہ دونوں مل کر ایک سلسلہ وار کتاب کی اشاعت عمل میں لائیں جو انگلش بولنے والے لوگ کے لئے اُردو ادب خاص طور پر مُغل دور کے اہم شعراء کے علاوہ غالبؔ کی بابت تفصیلی معلومات کرسکیں۔اُس نے اپنی تقرری کو دوران تعلیمی نصاب میں بہتری کے لئے کوشاں رہے۔انہوں نے اپنی یونیورسٹی کے طلباء کے لئے ایک کورس مرتب کیا اور1980 ء اسے‘‘ آسان اُردو’’ کے نام سے شائع کیا اور اس کورس کے ساتھ ایک عدد معاون کیسٹ بھی مہیا کیا۔

‘‘اُردو نظم کے خاص میزان’’ کے نام سے 1981ء میں ایک کتاب شائع کی۔بالغ انگریزوں کی سہولت کے لئے ہندوستان میں قیام کے دوران روزمرہ زندگی کی گفت گو کے لئے ایک کورس بھی ترتیب دیا۔اپنی قبل از وقت ریٹائرمنٹ کے بعد رسل برطانیہ کے مختلف علاقوں میں عام لوگوں کو اُردو زبان سکھانے جایا کرتے۔

اس برطانوی اُردو دان کا کہنا تھا کہ عام لوگوں کے لئے اُردو سیکھنے کے ابتدائی مرحلے کا کورس بنام‘‘برطانوی سیکھنے والوں کے لئے’’ اُن اسکولوں میں بھی پڑھایا جائے گا جہاں وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ اُردو سیکھنے جایا کرتا تھا۔رالف رسل کے مطابق اُردو سیکھنے کے لئے یہ کورس ہندوستان اور پاکستان میں ابتدائی اُردو سیکھنے کے لئے یکساں مفید ثابت ہو سکتا تھا۔

پروفیسر رالف رسل کی تصانیف کا ذکر کرنا اس لئے ضروری ہے کہ اُن کا شائع شدہ کام اُردو زبان کی تاریخ کا حصہ ہے۔ خورشید اسلام کے ساتھ رسل کی پہلی دو کتب یہ ہیں،‘‘میر،سودا، میر حسن: تین مغل شعراء ……(1969ء) ’’ تھی۔غالبؔ کے زندگی اور خطوط پر مبنی تصنیف،‘‘ غالب: زندگی اور خطوط’’۔ اس کے علاوہ رسل کی باقی آٹھ عدد تصانیف کا وہ تنہا مصنف تھا۔ ان کُتب کا احوال کچھ یوں ہے:The Pursuit of Urdu Literature(اُردو ادب کی جستجو……1992), An Anthology of Urdu Literature (1995), غالبؔ کی فارسی غزلوں سے انتخاب: ترجمہ کے ساتھ (1997)، The Famous Ghalib (2000) ، Life, Letters & Ghazals: The Oxford India Ghalib (2003),،The Seeing Eye: Selection from the Urdu & Persian Ghazals of Ghalib (2003)۔

Advertisements
julia rana solicitors

اُردو زبان ہمارا قومی اثاثہ ہے۔ ہر دانش ور اورمحقق کامشاہدہ اوراندازِفکر اس کی سوچ اور خیال کو جُداگانہ بناتا ہے۔ پروفیسر رالف رسل کی اُردو زبان کی ترقی کے لئے خدمات قابل ِ تحسین ہیں۔حکومتِ پاکستان نے پروفیسر رسل کو اُردو زبان کے فروغ کے لئے اُن کی خدمات کے اعتراف میں ستارۂ امتیاز سے نوازا۔غیر مُلکی علماء اور محققین کا اُردو زبان و ادب میں دل چسپی خوش آئند ہے، اور اس سلسلے کو جاری و ساری رہنا چاہیے۔ مختلف تنظیمیں اور ایسوسی ایشن مُلک میں اور بیرونِ مُلک اُردو کی ترقی کے لئے سرگرم عمل ہیں۔ مقامی اور غیر مقامی علماء اور ادباء کی حکومتی سرپرستی اس ضمن میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply