چالیس روزے، کوہ طور اور تجلی۔۔محسن علی خان

رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ ہے۔ تیس روزے ہم پر فرض ہیں۔ ہم پر آسانی یہ ہے کہ ہمیں سحری اور افطاری کی برکات سے نوازا گیا ہے۔ سحری میں بھی روٹی،پراٹھا، سالن،دہی، دودھ،لسّی وغیرہ اور افطاری میں بھی کھجور، مختلف اقسام کے فروٹ،  جوس یا شربت اور دیگر کھانے کی ڈشیں پیٹ بھر کر کھاتے ہیں۔ پچھلی امتوں کے لوگ جب روزہ رکھتے تھے وہ بہت طویل ہوتا تھا۔ اس میں ایک دن اور ایک رات میں صرف ایک مرتبہ ہی کچھ کھایا پیا جا سکتا تھا۔ آپ کہہ سکتے ہیں ان کی سحری،افطاری ایک ساتھ ہوتی تھی۔ حضرت موسی ٰ علیہ اسلام کو بھی جب توریت سے نوازنا تھا تو ان کو بھی تیس روزوں کا حکم ہوا تھا۔ حضرت موسی کوہ سیناء پر عبادت کے لیے جاتے تھے۔ روایات میں ہے کہ فرشتے نے چٹائی یا کرسی جنت سے لا کر دی کہ موسیٰ اپنے جوتے اتار کر اس پر بیٹھ کر عبادت کرو۔ کوہ سیناء یا وادی سیناء مصر میں واقع ہے۔ بلند و بالا پہاڑ ہیں جن کی نوکیلی چوٹیاں اور درختوں کی بہتات  ہے۔ ان میں سے ایک چوٹی کا نام طور بھی تھا۔ اس کے ایک طرف سینٹ کیتھرائن بھی ہے۔ سعید بن منصور نے ابو حبیب الحارث بن محمد سے روایت کیا کہ چار پہاڑ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقدس ہیں طور زیتا، طور سینا، طور تینا اور طور تیما اور وہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے، آیت(والتین والزیتون، وطور سینین، وہذ البلد الامین)۔ ترجمہ”قسم ہے انجیر کی اور زیتون کی اور طور سینا کی اور اس امن والے شہر کی”۔ طور زیتا بیت المقدس ہے، طور سینا طور پہاڑ ہے اور طور تینا دمشق ہے اور طور تیما مکہ ہے(تفسیر درمنثور)۔

حضرت موسی نے جب تیس روزے پورے کیے تو انہوں نے اپنی قوم بنی اسرائیل سے کہا کہ میرے رب نے مجھے توریت مقدس کتاب عطا کی، تاکہ میں تمھیں شریعت سکھاؤں اور تم ہدایت پانے والے ہو جاؤ۔ کسی روایت میں چالیس، کسی میں ستر افراد لے کر حضرت موسیٰ جب کوہ سیناء پر پہنچے، حکم الہی کے منتظر تھے کہ درخت سے پتّاتوڑ کر چبانے لگے۔ حکم الہی ہوا کہ اے موسیٰ تمہیں روزے کا حکم تھا، تم نے کیسے توڑ لیا۔ حضرت موسی ٰنے التجا کی، اے میرے پاک رب، تیسواں روزہ ہے جس کی وجہ سے میرے منہ سے بو آرہی تھی۔ تیری پاکی اور ملاقات کی وجہ سے میں نے درخت سے پتّا لے کر چبایا تاکہ منہ کی بو زائل ہو جاۓ۔ تب بارگاہ الہی سے مسواک کا حکم ہوا اور اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا، روزہ دار کے منہ سے نکلنے والی بو میرے لئے مشک اور عنبر جیسی خوشبوؤں سے بھی بڑھ کر ہے۔ چونکہ اب تو نے روزہ توڑ لیا ہے، اب دس روزے اور رکھنے کا حکم ہے تجھے۔ قوم والوں نے کہا اے موسیٰ جب تک ہم نہ دیکھ لیں رب ،ہم نہیں یقین کریں گے۔ ایک بجلی ان پر گری اور وہ سب مر گئے۔ تب پھر حضرت موسی نے دعا کی کہ الہی ان کو زندہ کر تاکہ میں اپنی قوم کو جواب دوں۔ یہ نہ ہو وہ سمجھیں کہ میں نے ان کو ہلاک کیا۔ اللہ رب العزت کے حکم سے وہ دوبارہ زندہ ہوۓ۔ پھر حضرت موسیٰ نے چالیس روزے پورے کیے اور اپنی قوم کے لوگوں کو لے کر دوبارہ کوہ سیناء پر حاضر ہوۓ۔

ملاقات اور دیدار الہی کے شوق میں حضرت موسیٰ اپنی قوم کو پیچھے چھوڑ کر پہاڑ کے اوپر آگئے اور ہمکلام ہوۓ۔۔ ہاۓ کیسا یہ شوق دیدار ہے اپنے محبوب سے ملنے کا کہ حضرت موسیٰ نے اپنی قوم کو پیچھے کھڑا کیا خود آگے آۓ، تاکہ دیدار ہو سب سے پہلے مجھے ہی ہو۔ میں ہی دیکھوں اس دنیا میں سب سے پہلے اپنے محبوب کو۔ مجھ سے پہلے کسی کی نظر ہی نہ پڑے میرے محبوب پر۔ کیا خوب محبت ہے۔ اس بات کو قرآن نے سورت طحہ میں ایسے بیان کیا، موسیٰ  کیوں جلدی کی تم نے اپنی قوم سے، بولے موسیٰ کہ اے میرے رب میں نے اس واسطے کیا ہے تاکہ تو مجھ سے راضی ہو جاۓ۔ پھر فریاد کی حضرت موسی ٰنے کہ اے میرے مالک مجھے اپنا جلوہ دکھا، اپنا سراپا دکھا، میں تجھ سے محبت رکھتا ہوں، میں تجھے دیکھنا چاہتا ہوں۔ اے میرے محبوب تو اپنا آپ ظاہر کر۔ فرشتوں نے جب یہ فریاد سنی تو حضرت موسی ٰ سے کہا، اے نبی خدا، آپ ہمکلام تو ہوتے ہیں، پھر بھی آپ دیکھنا چاہتے ہیں۔ روایت میں ہے کہ ستر ہزار شخص اپنی طرح اونی کپڑوں اور ہاتھ میں عصاء پکڑے دیکھے جب موسیٰ نے اور سب ہی دیدار الہی کے منتظر تھے۔ انہوں نے پوچھا، یا رب کیا ماجرا ہے، کیا میری طرح اور بھی ہیں یہ سب۔ تب فرمایا گیا، کہ نہیں تم اکیلے ہو لیکن یہ میری ذات ہے جو ہر چیز پر قادر ہے، حتی کہ تجھ جیسے اور بھی ایک پل میں بنانے کی قدرت رکھتا ہوں۔ حضرت موسیٰ کا تجسس اور بڑھ گیا۔ پھر التجا کہ میرا شوق تمنا تو بس دیدار الہی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سورۃ اعراف میں اس واقعہ کا ذکر ہے کہ جب حضرت موسیٰ نے اپنی خواہش کا ظہار کیا تو پاک پروردگار نے فرمایا، کہ اے موسی ٰ اس دنیا میں تو مجھے ہر گز نہیں دیکھ سکے گا، تو اپنی نظر سامنے پہاڑ کی طرف کر، اگر تو اپنی جگہ قائم رہے گا تو پھر تو مجھ کو دیکھ سکے گا، تو جیسے ہی رب العالمین نے اپنی تجلی دکھائی، پہاڑ جل گیا، ریزوں میں بکھر گیا، حضرت موسیٰ بھی بے ہوش ہو گئے اور قوم کے ستر یا چالیس افراد بھی مر گئے۔ جب ہوش میں لایا گیا موسیٰ  کو ،تو وہ فوراً متوجہ ہوۓ اور عرض کی، اے پاک ذات، میں توبہ کرتا ہوں اور یقین لاتا ہوں تیری ذات پر۔ تب پھر اللہ پاک نے فرمایا کہ جو تجھ کو دیا ہے اس کو پکڑ اور شکر کرنے والوں میں سے ہوجا۔ تب حضرت موسی کی دعا سے ان افراد کو بھی زندہ کیا گیا، اور حضرت موسی کو توریت عطا ہوئی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply