جناب دانیال علیہ السلام/ تحریر و تحقیق: ہمایوں احتشام

”ہم نے جب تستر(شوشتر) کو فتح کیا تو ہرمزان کے بیت المال میں ایک چارپائی دیکھی۔ اس پر ایک فوت شدہ شخص پڑا تھا۔ اس کے سر کے پاس ایک کتاب تھی۔ ہم نے وہ کتاب پکڑی اور اسے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں لے گئے۔ انہوں نے کعب احبار تابعی رحمہ اللہ کو بلایا جنہوں نے اس کتاب کا عربی میں ترجمہ کر دیا۔ میں عربوں میں سے وہ پہلا شخص تھا جس نے اس کتاب کو پڑھا۔ میں اس کو یوں پڑھ رہا تھا، گویا قرآن کریم کو پڑھ رہا ہوں۔ ابوالعالیہ کے شاگرد کہتے ہیں : میں نے ابوالعالیہ سے پوچھا کہ اس کتاب میں کیا لکھا تھا۔ انہوں نے فرمایا: اس میں امت محمدیہ کی سیرت، معاملات، دین، تمہارے لہجے اور بعد والے حالات۔ میں نے عرض کیا: آپ نے اس فوت شدہ شخص کا کیا کیا؟ انہوں نے فرمایا: ہم نے دن کے وقت مختلف جگہوں پر تیرہ قبریں کھو دیں۔ پھر رات کے وقت ان میں سے ایک میں اسے دفن کر دیا اور سب قبریں زمین کے برابر کر دیں۔ اس طرح کرنے کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو صحیح قبر کا علم نہ ہو اور وہ قبر کشائی نہ کر سکیں۔ میں نے عرض کیا: وہ لوگ اس فوت شدہ شخص سے کیا امید رکھتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: ان کا خیال یہ تھا کہ جب وہ قحط سالی میں مبتلا ہوتے ہیں تو اس کی چارپائی کو باہر نکالنے سے ان کو بارش عطا کی جاتی ہے۔ میں نے پوچھا: آپ کے خیال میں وہ شخص کون تھا؟ انہوں نے کہا: جسے دانیال کہا جاتا ہے۔ میں نے پوچھا: آپ کے خیال کے مطابق وہ کتنے عرصے سے فوت ہو چکا تھا؟ انہوں نے فرمایا: تین سو سال سے۔ میں نے کہا: کیا اس کے جسم میں کوئی تبدیلی آئی تھی ؟ انہوں نے فرمایا: نہیں، بس گدی سے چند بال گرے تھے، کیونکہ انبیائے کرام کے جسم میں نہ زمین تصرف کرتی ہے نہ درندے اسے کھاتے ہیں“۔
(السيرة لابن إسحاق، ص:67،66، طبع دارالفكر، بيروت، دلائل النبوة للبيھقي:382،381/1، طبع دار الكتب العلمية، بيروت)

جناب دانیال علیہ السلام خدا کے برگزیدہ پیغمبر تھے، جو بنی اسرائیل زوال کے آخری دور میں پیدا ہوئے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ آپ 457 ق م میں بیت المقدس میں پیدا ہوئے۔ دانی ایل کا لغوی مطلب “خدا میرا منصف ہے۔” ہوتا ہے۔ دانیال علیہ السلام کے والدین کے بابت عہد نامہ قدیم اور جدید دونوں خاموش ہیں۔ تاہم یہ بتایا جاتا ہے کہ جناب دانیال علیہ السلام یہوداہ کی نسل سے تھے۔ بنی اسرائیل کے ایک اعلی مرتبے والے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔

اپنے عنفوان شباب میں قیدی بنا لئے گئے اور بخت نصر دوم ان کو 587 ق م میں اپنے ساتھ بابل لے گیا۔ ان کے ساتھ ساتھ جناب یسعیاہ علیہ السلام، جناب یرمیاہ علیہ السلام اور جناب زکریاہ علیہ السلام کو بھی قیدی بنا لیا گیا۔ خداوند کے وعدے کے مطابق بخت نصر دوم بنی اسرائیل کی نافرمان اور گمراہ بھیڑوں کے ریوڑوں کو ہانک کر بابل لے گیا۔

جناب دانیال علیہ السلام بنی اسرائیل کے ایک معزز اور امیر خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کی قابلیت کو دیکھ کر بادشاہ بخت نصر نے ان کو دربار میں نوکری بخشی۔ بادشاہ نے ان کی عقلمندی اور زہانت سے متاثر ہو کر ان کو “بیلٹیشازار” کا خطاب دیا۔ جس کا مطلب “بیلٹے، بادشاہ کا محافظ” ہوتا تھا۔

صحیفہ دانیال علیہ السلام میں خداوند فرماتا ہے، ” (دانیال) جوان آدمی جس کو کوئی جسمانی عارضہ نہیں تھا، خوبصورت، ہر چیز سیکھنے کی صلاحیت رکھتا تھا، تعلیم یافتہ اور ہر چیز کو سمجھنے کی قابلیت کا حامل تھا، جو بادشاہ کے محل میں کام کرسکتا تھا۔”
خداوند مزید فرماتا ہے، ” سمجھ بوجھ اور حکمت کے معاملے میں جب بادشاہ سوال کرتا تو (دانیال) تمام جادوگروں اور درباریوں سے زیادہ مدلل اور بہترین جواب دیتا تھا۔”
جناب دانیال علیہ السلام کو خداوند نے دوسروں کے خوابوں کی تعبیر کا علم عطا کیا۔ انھوں نے پیشنگوئی کی کہ بخت نصر کے خاندان کی حکومت جلد تباہ ہوجائے گی اور پھر خداوند نے اپنے پیغمبر کی پیشنگوئی کو سچا کر دکھایا۔

جناب دانیال علیہ السلام سچے مومن تھے۔ انھوں نے بابل میں قیام کے دران کبھی غیر حلال (نان کوشر) زبیحہ نہ کھایا۔ انھوں نے پانی اور انتہائی سادہ غذاوں پر گزر بسر کیا، مگر اس کے خداوند نے انھی غذاوں سے ان کی صحت میں برکت عطا کی اور وہ بابلی لوگوں سے زیادہ صحت مند اور ہاش بشاش لگتے تھے۔

421 ق م میں بخت نصر دوم کو ایک پراسرار خواب نظر آیا۔ جس کی تعبیر جاننے کے لئے اس نے پوری سلطنت سے عقل مند لوگوں کو بلایا لیکن کسی نے بھی اسے مطمئن کردینے والی تعبیر نہ بتائی۔ جب شہر بابل میں منادی کروائی گئی تو جناب دانیال علیہ السلام نے بادشاہ سے ملاقات کا قصد باندھا اور اس کے محل جا پہنچے۔ انھوں نے بادشاہ کو بتایا کہ جلد ہی اس کے خاندان کی حکومت تباہ ہوجائے گی اور دوسری اقوام فارسی، رومی اور یونانی غالب آجائیں گے۔

بادشاہ اس تعبیر سے مطمئن ہوگیا بلکہ اس نے خوش ہوکر جناب دانیال علیہ السلام کو بابل کا گورنر اور اپنا وزیر اعظم مقرر کرلیا۔ بادشاہ جناب دانیال علیہ السلام سے اتنا متاثر ہوا کہ اس نے جناب دانیال علیہ السلام سے ایک دیوتا کی مانند برتاو کرنا شروع کردیا اور ان کے ساتھ قربانی کی بھینٹ چڑھائی گئی۔

میشنا مدرسا کے مطابق ” اگر جناب یوسف علیہ السلام نہ ہوتے تو پورا مصر تباہ ہوجاتا بالکل اسی طرح اگر جناب دانیال علیہ السلام نہ ہوتے تو بابل کے تمام عقل مند لوگ فنا ہوچکے ہوتے۔”

جناب دانیال علیہ السلام خداوند کے خادم اور برگزیدہ نبی تھے۔ “جو اپنے پروردگار کی عبادت کرتا تھا۔ ہر روز تین بار وہ بیت المقدس کی جانب رخ کرکے اپنے خداوند کی بزرگی اور بڑائی بیان کرتا تھا۔” صحیفہ دانیال کے مطابق “دانیال علیہ السلام خداوند کے سامنے جھک گیا اور بنی اسرائیل کے لوگوں کے گناہوں کا اعتراف کیا اور پھر بنی اسرائیل کو اس کی جانب سے دی جانے والی سزا کو بالکل درست اور منصفانہ مانا۔”

بارہ سال بعد 410 ق م میں بادشاہ کو پھر ایک پریشان کردینے والا خواب تواتر سے آنے لگا۔ جس پر اس نے جناب دانیال علیہ السلام کو طلب کیا اور تعبیر پوچھی۔ جس پر دانیال علیہ السلام نے فرمایا کہ ” تو سات سال تک پاگل رہے گا اور حتیٰ کہ جانور کی سطح تک آجائے گا۔ تاہم اس کی حکمرانی محفوظ رہے گی لیکن وہ خداوند کی حکمرانی تسلیم کرلینے کے بعد ہی اقتدار میں واپس آئے گا۔”

جناب دانیال علیہ السلام نے بخت نصر دوم کو نصیحت کی کہ اس خوفناک صورتحال سے بچنے کے لئے خداوند کے غریب بندوں پر اپنے خزانوں کا رخ کھول دے اور ان کی بھوک اور افلاس ختم کر، پھر شاید خداوند تجھ پر اپنا رحم کرے۔ بخت نصر دوم اس نصیحت سے مطمئن ہوگیا اور غریب بنی اسرائیل کی خوب مدد کی اور یہاں تک کہ کوئی بنی اسرائیلی بھوکا نہ رہا۔ ایک سال تک خداوند نے اپنا وعدہ موخر کئے رکھا اور پھر جب بادشاہ نے خیرات کرنا بند کردی تو خداوند نے اس کو فاتر العقل کردیا اور وہ جانور کی سطح تک گر گیا۔ جانوروں کی طرح حرکات کرنے لگا اور انھی کی طرح بولنے اور رہنے لگا۔

سات سال تک خداوند کے وعدے کے مطابق وہ جانور کی طرح رہا اور پھر حکم خداوندی سے وہ ٹھیک ہوگیا اور اس کی سلطنت محفوظ رہی۔ پھر 397 ق م میں بخت نصر دوم مر گیا اور اس کا بیٹا ایوول بادشاہ بنا پھر 23 سال تک وہ بابل کا حکمران رہا۔ 374 ق م میں ایوول کا بیٹا بالشازار بادشاہ بنا۔

بالشازار نے اپنے بادشاہ بننے کے جشن میں ان برتنوں میں شراب بھر کر پی، جو مقدس تھے۔ یہ مقدس برتن بخت نصر بیت المقدس سے لوٹ کر لایا تھا۔ خداوند بالشازار کی اس حرکت پر غضبناک ہوا اور اس نے جناب دانیال علیہ السلام کو بتادیا کہ بالشازار اور بابل کی تباہی کا وقت آن پہنچا ہے۔ خداوند نے اپنا عہد پورا کرنے کا وقت جناب دانیال علیہ السلام کو بتا دیا۔

پھر ایسا ہوا کہ بادشاہ کے محل کی دیوار پر کسی نے غیر مانوس زبان میں کچھ لکھ دیا۔ جس کو پڑھنے کے لئے ملکہ کے مشورے سے بالشازار نے جناب دانیال علیہ السلام کو طلب کیا۔ جناب دانیال علیہ السلام نے “مینے مینے تیکل یوفارسن” کا ترجمہ کچھ یوں کیا۔ ” گنتی، گنتی، تول، تقسیم ” جناب دانیال علیہ السلام نے بے خوف بادشاہ کے سامنے فرمایا کہ “تیرے اقتدار کے دن گنے جا چکے ہیں اور تیرا تول خداوند نے کرلیا ہے اور وہ تیری سلطنت کو میدیا اور فارس میں تقسیم کردے گا۔” اسی رات بالشازار کو اس کے محافظوں نے قتل کردیا۔

کچھ مہینوں بعد دارا نے بابل پر حملہ کردیا اور بابل کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ بابل کا نظم ونسق چلانے کے لئے دارا نے 120 افراد پر مشتمل ایک کاونسل بنائی، جس کی صدارت تین افراد کررہے تھے۔ ان تین افراد میں جناب دانیال علیہ السلام بھی تھے۔ بادشاہ دارا نے جناب دانیال علیہ السلام کی قابلیت اور فہم و فراست کو بھانپ لیا اور ان کی عقلمندانہ رائے کو فوقیت دینے لگا۔ یہ خیال کیا جارہا تھا کہ شاید جناب دانیال علیہ السلام کو دارا اپنا وزیر اعظم بھی تعینات کرلے۔

جناب دانیال علیہ السلام کی اس ترقی پر دوسرے درباری بڑے سیخ پا ہوئے اور انھوں نے جناب دانیال علیہ السلام کے خلاف سازش کا ایک منصوبہ بنایا۔ انھوں نے جناب دانیال علیہ السلام پر غداری کا الزام لگایا، مگر اس سے پہلے منصوبہ کچھ یوں بنایا گیا کہ بادشاہ کو یہ بتایا گیا کہ بابل میں بہت سارے لوگ بادشاہ دارا سے وفادار نہیں ہیں۔ سو سب لوگوں کی وفاداری کا امتحان لینے کے لئے رعایا و باقی خواص کو یہ حکم دیا جائے کہ وہ تیس دن تک مسلسل بادشاہ دارا کو سجدہ کریں گے اور اسے اپنا مالک و مختار مانیں گے۔ جو اس حکم نامے کو نہیں مانے گا، اسے شیروں کی کچھار میں ڈالا جائے گا، جہاں شیر اسے چیر پھاڑ دیں گے۔

“جناب دانیال علیہ السلام اٹھا اور اپنے گھر کی بالائی منزل پر چلا گیا۔ جہاں اس نے بیت المقدس کی جانب کھلنے والی کھڑکی کی طرف رخ کیا اور سجدے میں خداوند کے سامنے جھک گیا۔ وہ ہر روز تین بار خداوند کو پوجتا تھا۔” مخالف سازشیوں نے دارا کو جناب دانیال علیہ السلام کی عبادت کے بارے میں بتا دیا۔ جس پر دارا نے یقین نہیں کیا اور جناب دانیال علیہ السلام کو طلب کرکے ان کو سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ جس پر جناب دانیال علیہ السلام نے سجدے سے انکار کردیا۔ خدا کا پیغمبر سچا موحد تھا۔ سو بادشاہ دارا نے جناب دانیال علیہ السلام کو شیروں سے بھری کچھار میں ڈال دیا اور آواز لگائی کہ اس خداوند سے مدد مانگ، جس کے سامنے تو ماتھا ٹیکتا ہے۔

صبح دارا خود کچھار کے پاس گیا اور جناب دانیال علیہ السلام کو آواز دی۔ اندر سے جناب دانیال علیہ السلام نے خداوند کی تسبیح کی اور بتایا کہ خداوند کے ایک فرشتے نے شیروں کا منہ بند کردیا اور انھوں نے مجھے زرا سا بھی نقصان نہیں پہنچایا۔ دارا جناب دانیال علیہ السلام کو لے کر واپس اپنے دربار میں آیا اور ان تمام درباریوں اور ان کے خاندانوں کو شیروں کی کچھار میں ڈال دیا، جنھوں نے جناب دانیال علیہ السلام سے بغض رکھا۔

بخت نصر دوم کے دور کا ایک اور واقعہ بھی بنی اسرائیل کی کتابوں سے روایت ہے۔ جس میں بتایا جاتا ہے کہ بابل میں بخت نصر دوم نے اپنا ایک بت تعمیر کرایا۔ اس بت کو بیت المقدس کے بڑے پروہت کا ایک تمغہ، جس کا نام Tzitz تھا، وہ پہنایا گیا۔ اس تمغہ کو پہننے سے بت میں سے آواز آنے لگی کہ “میں ہی تمہارا آقا ہوں، میں تمہارا خداوند ہوں۔” اس فتنے کا شورو غوغا سن کر جناب دانیال علیہ السلام بت کے پاس گئے اور فرمایا، “میں کائنات کے خالق کا ایک ادنیٰ بندہ ہوں۔ میں تجھے حکم دیتا ہوں کہ تو جو کوئی بھی ہے، بت کے اندر سے باہر نکل کر آ۔” نبی اللہ کی ایک للکار پر تمغہ باہر آکر گر گیا اور بت خودبخود مسمار ہوگیا۔

بعد کے ایام میں اہم ترین واقعہ ہوا۔ جس میں جناب دانیال علیہ السلام نے دارا سے اپنے وطن واپس جانے کی درخواست کی۔ جس کو دارا نے قبول کرلیا اور بنی اسرائیل کو واپس بیت المقدس جانے کی اجازت مل گئی۔ وطن واپسی پر ایک بڑی کاونسل تشکیل دی گئی۔ جس میں جناب یرمیاہ، جناب دانیال، جناب حزقیل، جناب زکریاہ علیہم السلام وغیرہ تھے۔ شریعت موسوی کی جانب پلٹنے کے عمل کے آغاز میں انھوں نے سب سے پہلے بابلی زبان کو ترک کرنے اور موسیٰ علیہ السلام کی زبان کی جانب واپسی سے متعلق اقدامات اٹھانے شروع کئے۔ بنی اسرائیل سے مشرکانہ رسوم اور بدعات کا خاتمہ کرنے اور شریعت موسوی کو پھر سے زندہ کرنے سے متعلق احکام خداوندی بنی اسرائیل تک پہنچائے۔

جناب دانیال علیہ السلام کا مزار ایران کے صوبے خوزستان کے شہر شوشتر (تستر) میں ہے۔ آپ کی تدفین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں ہوئی۔ جس سے متعلق ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، “ابو بکر بن ابو الدنیا نے کہا ہے کہ ابو بلال بن حارث بن عبداللہ بن ابو بردہ بن ابو موسیٰ اشعری نے فرمایا کہ ابو الاشعث الاحمری نے فرمایا: ”دانیال علیہ السلام نے اللہ رب العزت سے دعا کی تھی کہ مجھے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی امت دفن کرے“۔

ابو موسیٰ اشعری فرماتے ہیں کہ

Advertisements
julia rana solicitors

” جب میں نے شہر تستر(شوشتر) فتح کیا تو میں نے دانیال علیہ السلام کو ایک تابوت میں پایا ان کی رگیں بالکل صحیح سالم تھیں ان میں خون جاری تھا اور نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہوا تھا جو حضرت دانیال علیہ السلام کی قبر بنائے گا اس کو جنت کی خوشخبری دو۔”

Facebook Comments

ہمایوں احتشام
مارکسزم کی آفاقیت پہ یقین رکھنے والا، مارکسزم لینن ازم کا طالب علم، اور گلی محلوں کی درسگاہوں سے حصولِ علم کا متلاشی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply