• صفحہ اول
  • /
  • خبریں
  • /
  • کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کی مدد کرتے رہیں گے۔۔سماجی کارکن درخشاں صالح

کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کی مدد کرتے رہیں گے۔۔سماجی کارکن درخشاں صالح

سندھ کمیشن برائے حقوقِ نسواں کی چیئرپرسن محترمہ نزہت شیریں نے کررونا وائرس سے آنے والی مشکلات میں عوام کا خیال اور فلاحی جذبے  سے مستحق افراد کی مدد کا سلسلہ یکم اپریل 2020 سے اپنی ممبرز کے ہمراہ شروع کیا، جو کہ تاحال جاری ہے۔ امداد کا یہ سلسلہ اپنی مدد آپ کے تحت اور کچھ مخیّر حضرات کے تعاون سے ممکن ہوا۔ اس کے تحت اب تک کراچی میں آٹھ سو راشن کے تھیلے مستحق افراد میں تقسیم کیے جا چکے ہیں۔

کمیشن کی ممبر درخشاں صالحہ نے کررونا وائرس کی وجہ سے مشکلات میں پھنسے افراد کی انتہائی لگن اور جانفشانی سے معاونت کی ہے۔
پاکستان کی ترقی و خوشحالی میں خواتین کا بہت اہم کردار ہے پاکستان کی خواتین دن رات اپنی عوام کی فلاح کے لیے کام کر کے یہ بات ثابت کر رہی ہیں کہ خواتین کسی بھی معاشرے کا اہم ستون ہوتی ہیں۔ ہم نے دیہاتوں، گوٹھوں، چرچ، مندروں، مختلف کچی آبادی والے غریب علاقوں میں بنا کسی تفریق کے راشن کی امداد کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔

کراچی کے تمام ڈسٹرکٹ میں راشن کی تقسیم کی گئی ہے جس میں والینٹئرز خواتین کی مدد سے تمام ڈسٹرکٹ میں مستحق خواتین تک راشن کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا ہے۔
خواتین نے ہر دور میں اس ملک کی خدمت کی ہے، پاکستانی خواتین کی لازوال قربانیاں ہیں، جنہیں ہمیشہ سراہا گیا ہے۔ ان شاء اللہ اسی طرح خواتین اپنی عوام، اپنے ملک کے لیئے ایسے ہی ہمیشہ جانفشانی سے کام کرتی رہیں گی۔
نیکی کے اس کام کرنے میں کچھ مشکلات بھی پیش آئیں اور کچھ اچھے لوگوں کی وجہ سے آسانیاں بھی پیدا ہوئیں۔ سب سے بڑھ کر جو بات سامنے نظر آئی کہ لوگوں میں انسانیت اور مدد کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔
یہاں میں اپنے کچھ تجربات بیان کرنا چاہوں گی۔
جب میں کمیشن کی طرف سے خیر محمد گوٹھ، خدا کی بستی گئی تو وہاں موجود مسز حبیب نے اپنا گھر رضاکارانہ طور پر ہمیں دیا کہ ہم وہاں راشن کے تھیلے رکھ سکیں اور مستحق خواتین میں منصفانہ تقسیم کر سکیں، ناصرف ہماری مہمان نوازی کی گئی بلکہ خود کو ملنے والے راشن کے تین حصے کر کے اپنے آس پڑوس میں بھی بھجوائے تاکہ کوئی بھوکا نہ رہ جائے ۔
مسز حبیب اپنے گھر میں لوگوں کے کپڑے سیتی  ہیں۔ انہوں نے اپنی بچیوں کو تعلیم بھی دلوائی ہے، ان کی ایک بیٹی گریجویشن کر رہی ہے اور ایک بیٹی گوٹھ کے ہی  سکول میں پڑھاتی ہے۔ مسز حبیب کے خاوند درزی کی دکان پر کپڑے سینے کے کاریگر ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اسی طرح سچل گوٹھ کی فرح ہے، اس کے خاوند کا کام لاک ڈاؤن کی وجہ سے بند ہوگیا۔ فرح کا خاوند رائیڈر ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے وہ گھر میں بے روزگار ہے۔ جب ان کے گھر راشن پہنچایا گیا تو اس نے اپنے حصے کے راشن سے ایک تھیلا اپنے پڑوسی کو بھی دے دیا۔ فرح ایک باہمت عورت ہے۔ اس نے اس مشکل وقت میں ہمت نہیں ہاری اور لوگوں کے تعاون سے اپنے گھر سے کپڑے بیچنے کا کام شروع کر دیا ہے۔ فرح نے مانگنے کے بجائے کام کرنے کو ترجیح دی۔ اللہ پاک فرح کے کام میں برکت دے اور اس کی مشکلات کو دور کرے۔
کورنگی کے علاقے میں جب ہم گئے تو وہاں مختلف لوگوں میں راشن کی ڈسٹری بیوشن کی، جس میں ہندو اقلیت بھی شامل تھی۔ ان میں ایک خاندان جس میں میاں، بیوی، تین بچے شامل ہیں۔ خاوند کا نام مکیش کمار ہے۔ بیوی کا نام انیتا مکیش ہے۔ جب ان کو راشن کی پیشکش کی گئی تو انیتا نے کہا کہ ان کو راشن کی ضرورت نہیں ہے، یہ راشن کسی اور ضرورت مند کو دے دیا جائے۔ چھوٹے بچوں کی وجہ سے جب ان کو کچھ کیش اماؤنٹ دینا چاہا تو انیتا نے یہ کہہ کر منع کردیا کہ ہمارا کسی نہ کسی طرح سے گزارا ہو رہا ہے ایک دن اس کے خاوند کا کام بھی چل جائے گا، لیکن اس وقت ضرورت ان لوگوں کو ہے جن کے پاس کھانے کو کچھ بھی نہیں۔
اسی طرح فیڈرل بی ایریا کی کچی آبادی میں مقیم ایک دھوبی کی بیوی جس کے خاوند کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے، اس کو جب راشن بھیجا گیا تو اس نے لینے سے انکار کر دیا۔ اس نے ہمیں کہا کہ میرے بچے ہیں جو کمانے کے قابل ہیں، مجھے راشن کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ کسی ضرورت مند کو دے دیا جائے۔
ان انسانیت پسند ساتھیوں کی عظمت کو میں سلام پیش کرتی ہوں جب کہ اس مشکل گھڑی میں ہر کسی کو صرف اپنی پڑی ہے۔ جہاں لوگ ایک خاندان کے لئے چار، چار راشن کے تھیلے لے جا رہے ہیں وہاں مسز حبیب، فرح، انیتا مکیش اور دھوبی کی بیوی جیسی خواتین بھی موجود ہیں جو اپنے دل میں لوگوں کا درد رکھتی ہیں۔
ہمارے شہر کی یہ حوصلہ مند خواتین خودداری اور جذبہ انسانیت سے مالا مال ہیں۔ ان کے نزدیک کسی کی مدد کرنا خدا سے قریب ہونا ہے۔ میں اس کالم کی وساطت سے ایسی تمام خواتین و حضرات کی عظمت کو خراج تحسین پیش کرتی ہوں۔ یہ خواتین ہمارے لئے مشعلِ راہ ہیں اور اس کڑے وقت میں ہمارے لئے ایک رول ماڈل ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply