اختلاف کے ساتھ اتحاد بھی ضروری ہے۔۔طاہرہ مریم

فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں

مولانا طارق جمیل صاحب کی احساس ٹیلی تھون میں کی جانے والی دعا بہت سے مکتبہء فکر، خاص طور صحافی طبقہ اور خواتین کے حقوق کی تنظیموں میں وجہء تنازعہ بنی ہوئی ہے۔ اگرچہ مولانا صاحب نے فہم و فراست کا ثبوت دیتے ہوئے دونو ں فریقوں سے معافی مانگ لی تا کہ بات کو ختم کر دیا جائے مگر دونو ں فریق مان کر ہی نہ دینے والی بات کر رہے ہیں۔
قطع نظر کسی بھی قسم کی کسی بھی فریق کے ساتھ نظریاتی وابستگی کے بغیر، یہاں پر میرا سوال یہ ہے کہ کیا ہمیں خود کو صحیح  ثابت کرنے کے لئے کسی کو غلط ثابت کرنے کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے اور کیا یہ ہماری ذہنی ناپختگی کے درجے کو ظاہر نہیں کرتی ہے،اور ہم بحث برائے بحث اور اختلاف برائے اختلاف کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں، اس معاملے میں ہماری آدھی قوم کسی نا  کسی طرح سے مولانا طارق جمیل صاحب کو غلط اور صحافی برادری اور خواتین کے حقوق کی تنظیموں کو سچ ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہے،جبکہ دوسرا گروہ اس کے برعکس کام کر رہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب آتے ہیں مسئلے کے حل کی طرف کہ اس مسئلے کا کیا حل ہوسکتا ہے،محترم قارئین،اللہ تعالی قرآن پاک میں فرماتے ہیں کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو(سورۃ ا ل عمران: ۳۰۱) یہ اللہ کی رسی کیا ہے،یہ وہ کتاب ہے جس میں ہمارے تمام مسائل کا حل موجود ہے،اور ہم نے آج من حیث القوم اس رسی کو مضبوطی سے تھامنا ہو گا، تاکہ  آپس کے اختلاف کو ختم کیا جاسکے، آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خود کو قرآن جو کہ مکمل ضابط اخلاق ہے اور ہمیں زندگی گزارنے کا طریقہ سیکھاتا ہے،کے  آئینے میں دیکھیں اور سوال کریں کہ کیاایک صحافی ہونے کے ناطے میں قرآن کے متعین کردہ ضابطہ حیات کے مطابق سچ بولتا۔بولتی اور لکھتا یا لکھتی ہوں،اگر جواب الحمد اللہ ہاں میں ہے،تو میرا خیا ل ہے کہ اس بارے میں کسی کو بھی صفائی پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے،کیونکہ جب آپ اندر سے مطمئن ہوں تو باہر کی آوازیں آپ کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکیں گی،بالکل اسی طرح ایک خاتون ہونے کے ناطے مجھے اپنا لباس قرآن میں دیئے گئے احکامات کے آئینے میں جائیزہ لینا ہے،کہ آیا اللہ کی مقرر کردہ حدود اور احکامات کے مطابق ہے،اگر جواب الحمد اللہ ہاں میں ہے تو ہمیں کانوں کا کچا ہونے اور کسی کے بیان پر بھی سیخ پا ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
رہ گئی بات مولانا طارق جمیل صاحب کے اس بیان کی کہ اس بے حیائی یا بے لباسی کی وجہ سے کورونا جیسی آفات نازل ہوتی ہیں،تو اس کا جواب یا بحث کرنا اس لئے نہیں بنتا کہ مولانا صاحب نے اپنے بیان پر غیر مشروط معافی مانگ لی ہے،اور اللہ تعالی سورۃ نور آیت نمبر ۲۲ میں فرماتے ہیں کہ لوگوں کو ایسے ہی معاف کر دیا کرو،جیسے تم اللہ سے معافی کی امید رکھتے ہو۔
آخر میں میری آپ سب سے درخواست ہے کہ آپس کے اختلافات کو ختم کرتے ہوئے پاکستان کو موجودہ بحران سے نکالنے کے لئے اپنے اپنے دائرہ کار میں صدق دل سے محنت کریں،نفرتوں کو ختم،بھائی چارے،پیار محبت اور اخوت کے جذبات پیدا کریں اور انہیں فروغ دیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply