اچھے لوگ۔۔ڈاکٹر عمران آفتاب

(یہ واقعات گزشتہ سے پیوستہ رمضان المبارک میں میرے ساتھ پیش آئے۔ لاک ڈاؤن کے دوران سوچا کہ ایک مرتبہ پھر ان اچھے لوگوں کی یادیں تازہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے جو ہمارے معاشرے کا حسن ہیں)۔
کل رات موبائل چارجنگ پہ لگایا تو معلوم ہوا کہ چراغوں میں روشنی نہیں رہی ۔ یعنی چارجنگ والا پوائنٹ جسے جیک کہتے ہیں وہ شائد خراب ہو گیا ہے ۔ صبح اٹھ کر بازار کا رخ کیا جہاں شہر کی سب سے بڑی موبائل مارکیٹ ہے ۔ ہر کسی نے کہا موبائل دے جائیں شام کو لے جائیے گا، جیک تبدیل ہو گا۔ ایک تو اپنے سامنے کام کروانا چاہتا تھا دوسرا موبائل کھلوانا نہیں چاہتا تھا کہ اس سے ظاہر ہے مارکیٹ ویلیو کم ہو جاتی ہے۔ اپنے ایک مخلص ورکر، حضرت بلند خان جو میرے کلینک کا ڈسپنسر ہے، سے کہا کوئی جاننے والا ہو تو بتاؤ ۔ اس نے کہا آپ میری طرف آ جائیں۔ میرے گھر کے پاس ایک چھوٹی سی دکان ہے مگر بندہ ایماندار اور کاریگر ہے۔
رسک تو لینا پڑا ، بہر حال لائلپور کی کینال روڈ اور کشمیر روڈ سے ملحقہ ایک آبادی میں واقع اس دکان پہ چلا گیا۔
ایک نو عمر لڑکا موبائیل سیٹ مرمت کر رہا تھا۔ کہا یار جیک چینج کر دو۔ کہنے لگا لائیے دکھائیں۔ چیک کرنے کے بعد بولا ، تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں ، تھوڑا سا کاربن آ گیا ہے، برش سے صاف کر دیتا ہوں۔
پانچ منٹ کے بعد بولا اب چارجر لگا کر چیک کریں ۔ بہت حیرت ہوئی کہ بالکل درست چارجنگ ہو رہی تھی۔ پیسے پوچھے تو کہنے لگا یہ کون سا کوئی کام تھا۔ اس کے پاس دکان بھلے چھوٹی تھی لیکن قناعت بہت زیادہ ۔
اسی طرح گزشتہ ماہ پلاسٹک کی ٹیبل کا ایک پایہ نیچے سے ٹوٹ گیا ۔ فیصل آباد کی جناح کالونی اور نڑوالا روڈ پہ جس سٹور سے خریدی تھی ان کے پاس لے گیا، حاجی صاحب کہنے لگے کہ یہ اب نا قابل مرمت ہے۔ بقیہ شو رومز والوں کو دکھائی، انہوں نے بھی یہی کہا۔ البتہ ایک کاریگر نے مشورہ دیا کہ کسی لکڑی والے سے لکڑی کا گٹکا(ایک ٹکڑا) لگوا لیں۔میں نے سوچا یہ پلاسٹک میں لکڑی کا پیوند تو بہت برا لگے گا۔ گھر واپس آ گیا اور ٹیبل ایک سائیڈ پہ رکھوا دی۔ گزشتہ ہفتے کسی اور کام سے کارپنٹر کی ضرورت پڑ گئی ۔ جب وہ کام مکمل کر کے جانے لگا تو یونہی خیال سا آیا کہ اسے ٹیبل دکھا دوں ۔ دیکھتے ہی بولا تھوڑی سی ایلفی دیجیے ۔ میں نے کہا ایلفی سے مضبوطی نہیں آئے گی ۔ بولا آپ یہ مجھ پہ چھوڑ دیں ۔ اتنے میں وہ لان سے تھوڑی سی مٹی اٹھا لایا۔ اس کا کیا کرو گے ؟؟ میں حیران تھا۔ ابھی دیکھیں ، یہ کہہ کر اس نے پہلے ٹوٹا ہوا ٹکڑا جوڑ کر ایلفی کا لیپ کیا اور پھر گیلی ایلفی پہ مٹی چھڑک دی۔ چند سیکنڈ بعد مٹی کے اوپر ایک اور کوٹ ایلفی کا کر دیا ۔ لو صاحب اب کوئی اور پایا ٹوٹ جائے تو ٹوٹے یہاں سے نہیں ٹوٹے گا۔ واقعی غور کیا تو مٹی اور اوپر سے ایلفی کا دوسرا کوٹ ،سیمنٹ کی طرح مضبوط ہو گیا تھا۔ جو کام بڑے بڑے پلاسٹک فرنیچر کے کاریگر کرنا نہیں جانتے تھے یا کرنا نہیں چاہتے تھے، وہی کام ایک ایماندار اور ذہین کارپنٹر نے کر دیا۔ (آج دو سال بعد بھی وہ سلامت ہے)۔
تیسرا واقعہ پانی کی موٹر کا ہے، جو ہر گھر میں کبھی نا کبھی خراب ہوتی ہے اور ہر مرتبہ ایک ہی نسخہ بتایا جاتا ہے ،نئی وائنڈنگ کرا لیں ۔ ایک تو گرمی ،اوپر سے رمضان المبارک، پرانے الیکٹریشن نے بہانے بنائے تو چھوٹا مانانوالہ کے الیکٹرک سٹور سے ایک نوجوان کو کہا کہ آ کر دیکھو۔ چیک کر کے بولا کہ وائنڈنگ کا مسئلہ ہی لگتا ہے دکان پہ چیک کروں گا۔100% کاپر وائر لگانے کی گارنٹی پہ وائنڈنگ کے 1500 روپے طے ہوئے ۔ اگلے روز آ کر قمر نامی اس نوجوان نے موٹر چالو کر دی۔ پیسے لینے کے وقت بولا وائنڈنگ کا مسئلہ نہیں تھا ڈاکٹر صاحب۔ بس ایک پرزہ ٹوٹ گیا تھا۔ خرادیے سے مرمت کروایا ہے، 300 روپے دے دیں۔
یہ بھی اپنے لوگ ہیں ۔ اسی ملک ، اسی شہر میں موجود ہیں ۔ تو کیا ضروری ہے کہ ہمیشہ اپنے ملک اپنی قوم کی برائی ہی کی جائے ۔ اچھی بات اور اچھے لوگوں کو پروموٹ کرنا ، پازیٹوٹی کو اجاگر کرتا ہے۔ جہاں ہم ہمیشہ تنقید اور منفی پہلو ڈسکس کرتے ہیں وہیں ایک ادنی سا خراج تحسین ان کے لیے جن کے دم سے دنیا قائم ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply