اسلام کے پانچ ارکان اور ہم پشتون۔۔عارف خٹک

کہا جاتا ہے،کہ اسلام کے پانچ ارکان میں سے نماز، حج اور روزہ پر صرف ہم پشتونوں کا حق ہے۔ بقیہ دو ارکان یعنی کہ ایمان اور زکوٰۃ دوسرے مسلمانوں کےلئے ہیں۔ بچپن سے ہمیں چچا اور ابا مار مار کر مسجد لے جاتے ہیں،یہ کہہ کر کہ نماز پڑھا کرو۔ بالآخر نماز کی یہی عادت ہماری اتنی پکی ہوجاتی ہے،کہ مرتے دم تک نماز نہیں چُھوٹتی۔ بلکہ نماز کے ہم اتنے عادی ہوچکے ہوتے ہیں کہ وزیرستان میں دُشمن کے قتل پر دو رکعت شکرانےکے نفل ادا کئے بغیر اُس خوشی کا سواد نہیں آتا۔ساتھ ہی شُکر گُزاری کا احساس بھی کہ اللہ نے بدلہ لینے کی توفیق عطاء فرمائی۔اور دوسری طرف اُسی وقت مُخالف فریق بھی سجدے میں آپ کی موت اپنے ہاتھوں سے انجام پانے کی آرزو میں دو رکعت نماز حاجت پڑھ رہا ہوتا ہے۔ باقی دروغ بہ گردن مجید داوڑ کہ بنوں میں جو لختئی نماز نہیں پڑھتا،اُس کو مُنہ لگانا بھی کُُفر سمجھا جاتا ہے۔
ہمارے پشتونوں میں حج پر سب سے زیادہ حق ہمارے آفریدی قبیلے کا ہوتا ہے۔ بلکہ ہم نے تو یہ بھی دیکھا ہے۔کہ کسی آفریدی کا اسلحے کا ٹرک گر لاہور تک بحفاظت پہنچانا مقصود ہو ،تو مَنّت میں ایک حج مانا جاتا ہے۔اگر چرس کا ٹرک بے خوف و خطر کراچی پُہنچانا ہو تو دو حج اور اگر دبئی شپمنٹ بغیر نقصان اُٹھائے لے جانی ہو تو پورا خاندان جاء نمازوں پر پڑ کر اللہ سے وعدہ کرتے ہیں۔کہ حجِ اکبر پر بمعۂ اہل و عیال جائیں گے۔
روزہ ہر پشتون رکھتا ہے۔ مگر جو خشوع و خضوع روزے کیلئے خٹک قبیلے کے ہاں ملتا ہے وہ کسی اور قبیلے کی قسمت میں کہاں۔ خٹک سال کے بارہ مہینے بغیر پانی اور فصل کی عادی قوم ہے۔ کم کھانا کم پینا ان کا نصیب ہے۔اس لئے سال کے گیارہ مہینے وہ ویسے بھی بُھوکے پیاسے رہتے ہیں۔اور اسی حساب میں رمضان کا مہینہ ثواب سمجھ کر اپنی روایتی بُھوک و پیاس کو وہ اللہ کے کھاتے میں ڈال کر جنت کے خواب دیکھنے لگ جاتے ہیں۔ باقی نسوار سے روزہ ٹُوٹتا ہے یا نہیں۔اس پر ہمارے پشتونستان اور افغانستان میں صدیوں سے بحث جاری ہے۔ ہمارے دادا حضور کو اللہ جنت نصیب کرے۔ کہتے تھے کہ ہر وہ چیز جو زبان سے اندر جاکر معدے کا حصہ بنتی ہے،اُس سے روزہ ٹُوٹ جاتا ہے۔نسوار تو ہونٹوں کے بیچ رکھی جاتی ہے،سو نسوار سے روزہ کیسے ٹُوٹ سکتا ہے۔ البتہ مکروہات کیلئے اسلام میں چھوٹی چھوٹی قابل برداشت سزائیں ہیں۔جس کو نسوار کی محبت میں ہنسی خوشی برداشت کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے مختلف مشائخ اور علماء تقریباً اس بات پر مُتفق ہیں بشرطیکہ یہ سوال ان سے دورانِ روزہ اور گوشۂ تنہائی میں پُوچھا جائے۔
افغان طالبان دورِ حکومت میں ایک مشہور واقعہ ہوا تھا۔ کہ رمضان کے بابرکت مہینے میں ایک نوجوان کو منہ میں نسوار سمیت دھر لیا گیا۔تو احمد شاہ معسود چار راہی یا چوک میں اس کو ذلیل کروانے کے لئے سینکڑوں کے مجمع کے سامنے ایک بزرگ سے کہا گیا،کہ اس نوجوان کے منہ پر آکر تھوک دیں۔ بزرگ نے بہیترا سمجھایا کہ نوجوان ہے۔ غلطی ہوئی ہے۔اس کو معاف کردیا جائے۔ مگر طالبان کے اہلکاروں نے بندوق کے زور پر بزرگ سے نوجوان کے منہ پر تُھوکوا دیا۔ بزرگ کی تُھوک بھی ہری بھری تھی۔ یہ دیکھ کر طالب کمانڈر نے غصے میں آکر نسوار تھوک دی اور چیخ کر بولا۔ان گُناہنگاروں کو اُلٹا لٹا کر کوڑے مارے جائیں۔
ایمان سے ہمارا اتنا سروکار نہیں ہے۔ ہم کاروبار میں بھی سودا کرنے والے کو فریق مخالف سمجھتے ہیں۔ اور فریق مخالف ہماری روایات میں دُشمن کو کہا جاتا ہے۔ جس پر انگریزی کا معروف قول فٹ بیٹھتا ہے کہ “محبت اور جنگ میں سب جائز ہوتا ہے”۔
زکوٰۃ کے حوالے پہلے بھی ہمارا ٹریک ریکارڈ اتنا شاندار نہیں تھا۔اب تو ہماری ڈکشنری میں ایک اور مظلوم نعرے کا اضافہ بھی کیا گیا “زما لویہ گناہ دا دہ چہ پختون یم”۔ (میرا سب سے بڑا گُناہ پختون ہونا ہے)۔ اور اسلام میں مظلوم سے زکوٰۃ لی نہیں جاتی،بلکہ دی جاتی ہے۔
اگر ہم پشتون اسلام کے تین ارکان گلے میں لٹکائے پھر رہے ہیں،تو پنجابی کیا آسمان سے اُتری ہوئی مخلوق ہے؟ہمارا پُرزور مُطالبہ ہے کہ ایمان کو چھوڑ کر صرف ایک رکن کی پیروی تو وہ بھی کریں کم از کم ۔ ہم پُراُمید ہیں کہ اس سال پنجاب سے میرے مظلوم پشتونوں کےلئے ٹرک بھر بھر کر زکوٰۃ آنی چاہیئے۔ ہر پشتون اپنی پسند کی زکوٰۃ لینے میں آزاد ہو سوائے “سامراج آزادی” کے کہ اس کے لئے ہمارے پشتو میں ایک بہت بُرا لفظ ہے۔اب یہ آپ پر مُنحصر ہے کہ ان ٹرکوں سے کیا کیا لیناچاہیں گے۔مگر میں تاں زکوٰۃ چہ ستارہ بیگ ہی لے ساں۔
“چہ کیمہ دو”

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply