ہم جنس باہم پرواز جنس۔۔سلیم مرزا

چھوٹے شہروں میں اگر کسی دکان کی برفی مشہور ہے تو کوئی موچی جوتے کو نئے جیسا بنانے میں شہرت رکھتا ہے ۔کسی قصائی کی گوشت کی دکان بہت چلتی ہے تو کہیں نان چنوں کیلئے لوگ لائنوں میں لگے ہوتے ہیں ۔ سب کی دکانیں گوکہ مختلف ہوتی ہیں ۔مگر۔۔ دو چیزیں بڑی مشترک ہوتی ہیں ۔
اچھی سیل اور ان کا گاہکوں کے ساتھ بدتمیز رویہ ۔

موچی کی دکان کے سامنے اگر آپ کا جوتا ٹوٹ جائے وہ کل کاٹائم دے گا ۔لاکھ کہیں جناب لاہور سے آیا ہوں ابھی کردیں ،نہیں کرے گا ۔انتہائی نخرے سے بتائے گا
“اگلے چوک میں مینے موچی کی دکان ہے “۔
اسی طرح قصائی سے کلو گوشت لینے جائیں تو وہ دس، دس کلو والے گاہکوں کو روک کر آپ کو یوں سوالیہ نظروں سے دیکھتا ہے جیسے پوچھ رہا ہو ۔
“توں کدھر “؟
پھر وہ چھیچھڑے اکٹھے کرکے تولنے لگے اور آپ ٹوک دیں تو بتاتا ہے” موڑ مڑتے ہی فیقے قصائی سے لے لیں ۔میرا سارا بکا ہوا ہے ۔”
قصبے کا وہ ڈاکٹر بھی ایسا ہی ہے اینٹ پہ بیٹھ کر ایسی رٹا بازی کی ْایم بی بی ایس کی ڈگری بعد میں چھپی،اس کے پچھواڑے اینٹ پہ لکھی “خشت اوّل ” کی ڈگری پہلے چھپ گئی۔غریب گھر کا تھا ، نیا نیا ڈاکٹر بنا تو فجر پڑھ کر کلینک پہ بیٹھتا اور تہجد کو بھی مریض گھر جاکر دیکھ آتا ۔
پانچ چھ سال میں ہی نئے گھر اور گاڑی تک جا پہنچا ۔
اس کے ہاتھوں میں شِفاء اللہ کی دین تھی اور بدتمیزی اس کے احساس کمتری کا اظہار ۔

ہماری اس کی دوستی بمشکل سال بھر چلی، وہ دوستی میں عزت چاہتا تھا اور ہم یاروں کو عزت کی بجائے جان بھی دینے پہ تیار تھے ۔نیک نامی اس کی کاروباری مجبوری تھی، وہ سب پٹھے سیدھے کام چھپ کر کرنا چاہتا تھا۔اور ایسا صرف اسی کے دھندے میں ممکن تھا ۔لہذا پندرہ بیس سالوں سے ملاقات نہیں تھی،چار سال پہلے میں اسلام آباد میں تھا ۔
امی میرے بھائیوں کے ساتھ رہتی تھیں ۔۔وہی انہیں چیک اپ کروانے ڈاکٹر کے پاس لے کر جاتے،ماں جی کو اس کے علاج سے کافی افاقہ تھا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ڈاکٹر صاحب اب نری نوٹ چھاپنے کی مشین تھے ۔۔اور دماغ مزید خراب ہوچکا تھا ۔اب پرہیز اور علاج کے نام پہ مریضوں اور ان کے ساتھ آنے والوں پہ چڑھ دوڑنا ان کا معمول تھا ۔
اسلام آباد سے گھر آیا تو ماں جی کا ہفتہ وار چیک اپ تھا ۔میں نے اپنے بھائیوں سے کہا کہ میں امی جان کو ڈاکٹر کے پاس لے جاتا ہوں ۔
وہ بھی ڈاکٹر کے روئیے اور مریضوں کے رش سے تنگ تھے ۔گھنٹہ دو گھنٹے بیٹھنے کے بعد باری آتی ۔لہذا ان کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا ۔
میں ماں جی کو لیکر ڈاکٹر کے ہسپتال نما کلینک جا پہنچا ۔ابھی والدہ کو اندر لیجانے کا سوچ ہی رہا تھا کہ ایک لڑکا گاڑی کے پاس وہیل چیئر لے کر آگیا ۔پھر بجائے انتظار گاہ میں بٹھانے اور پرچی بنوانے کے والدہ کو سیدھا ڈاکٹر کے پاس ہی لے گیا ۔ڈاکٹر مجھے کرسی سے اٹھ کر ملا، حال چال، چائے پانی پوچھا ۔والدہ کے معائنے کے دوران سامنے لگی ایل سی ڈی کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگا کہ میں نے آپ کو سی سی ٹی وی پہ دیکھ لیا تھا ۔تبھی لڑکے کو وہیل چئیر دے کر بھیجا تھا ۔
چیک اپ کے بعد باہر آکر جب ریسپشن پہ فیس دینا چاہی تو کاؤنٹر والوں نے لینے سے انکار کر دیا، کہنے لگے ڈاکٹر صاحب نے منع کیا ہے ۔
کلینک سے نکل کر گھر کی طرف آتے ہوئے ماں جی کہنے لگیں ۔”پتر وکی ایک بات کہوں ؟ ڈاکٹر کوئی اچھے کردار کا بندہ نہیں ”
میں نے حیران ہوکر انہیں دیکھا
” ماں جی آپ نے کیسے اندازہ لگایا ”
کہنے لگیں “پتر تیرے بھائی کاروباری شریف آدمی ہیں داڑھیاں والے، مسجد کے منتظم، یہ ان سے کبھی عزت اور تکریم سے پیش نہیں آتا، اور تو اور ہر بندے کو پنجے جھاڑ کر شروع ہوجاتا ہے ۔۔مگر کاکا ۔
تیری پیروں کی طرح عزت کر رہا تھا ۔اس سے میں نے حساب لگا یا کہ ” ڈاکٹر وی کنجر ای اے “۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply