مکالمہ کیوں ضروری ہے

مکالمہ کیوں ضروری ہے
طاہر یاسین طاہر
ہم جس عہد میں جی رہے ہیں یہ ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے۔دنیا اب مختلف ممالک کا نام نہیں رہا بلکہ ایک بڑے ڈرائنگ روم میں تبدیل ہو چکی ہے جہاں مختلف ناموں کے ممالک اپنی اپنی معاشی،سیاسی و سائنسی حیثیت کے مطابق موجود ہیں۔سائنس کے اس دور نے دوریاں ختم کر کے رابطوں کو تیز تر کر دیا ہے۔یہ سوال بڑا اہم ہے کہ ہم مکالمہ کیوں کریں؟کیا ہمارے پاس اپنے موقف کو منوانے کے لیے دلیل نہیں؟کیا ہمارے پاس مناظرانہ ذہن نہیں جو مقابلہ جیت سکیں؟ہم بحث سے گریز کیوں کریں؟کیا ہم کمزور ہو گئے ہیں کہ مکالمہ کریں؟ہمارے پاس اسلاف کی روایات میں “مناظرانہ دنگل “کی سینکڑوں مثالیں ہیں جنھیں ہم “متبرک مثال “بنا کر بحث و مناظرہ کو جدید رنگ دے سکتے ہیں؟آخر وجہ کیا ہے کہ ہم مکالمہ کو ہی ترجیح دیں۔
میرے خیال میں اس کا ایک ہی جواب ہے کہ ہم اب ایک ایسے عہد میں جی رہے ہیں جسے مہذب دنیا کا زمانہ کہا جاتا ہے۔ اس عہد کو سائنس کا دور کہا جاتا ہے۔ وہی سائنس جس نے ڈی این اے ٹیسٹ متعارف کرا کے شجروں تک کو کھنگال ڈالا ہے۔بلا شبہ اس عہد کی ضرورت مکالمہ ہی ہے۔ماضی سے حال تک،ہمارے سامنے سینکڑوں مثالیں بکھری پڑی ہیں ،جہاں بھی مکالمے سے گریز کر کے بحث و مناظرہ کا ماحول بنایا گیا،وہاں کفر و قتل کے فتووں نے راج کیا۔ بوسنیا،کشمیر،افغانستان،فلسطین،عراق،شام،لیبیا،نائیجیریا،اور ہر اس جگہ جہاں مناظرانہ ذہنیت نے پنجے گاڑے ،وہاں انسانی خون نے زمین کا رنگ سرخ کیا۔ممکن ہے لسانیات کے ماہرین بحث و مکالمہ کو ایک ہی نسل کے جڑواں و ہم معنی حروف کہہ دیں،مگر طالب علم کے خیال میں بحث شروع ہی اس نیت سے کی جاتی ہے کہ غلط یا صحیح،کسی بھی طرح اپنے موقف کو درست ثابت کرنا ہے،جبکہ مکالمہ میں ہم اپنا موقف دلیل سے پیش کر کے دوسرے کا موقف تحمل سے سنتے ہیں۔یہاں یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ بحث میں بھی تو دلیل کا سہارا لیا جاتا ہے؟ مناظرہ میں بھی تو دلیل کا سہارا لیا جاتا ہے۔جواب اس کا یہ ہے کہ بحث و مناظرہ میں دلیل کے ساتھ ہٹ دھرمی کا بھی سہارا لیا جاتا ہے۔مناظرانہ روش نفرت کی بنیاد ہے جبکہ مکالمہ صحت مندانہ علمی و فکری رویوں کی آبیاری کرتا ہے۔
کیا ہمارے سامنے ہمارے سماجی و سیاسی رویوں کی مثال موجود نہیں؟سیاسی جماعتوں کے ترجمان اپنے رویوں میں مناظر ہیں۔اپنی پارٹی لیڈر کی غلط بات کے لیے بھی توجیح ڈھونڈ نکالتے ہیں۔اس رویے کا نتیجہ منفی نکلا ہے اور ہم سماجی،سیاسی و معاشی حوالے جدید دنیا سے ہم آہنگ نہیں ہو پارہے ہیں۔کیا ہمارے ہاںمسلکی بنیادوں پر مناظرانہ مثالیں موجود نہیں؟ اگر یہی مسلک باہم مشترکات کو لے کر ایک دوسرے کو برداشت کریں تو کفر و قتل کے فتووں سے نجات ملے۔یہ مگر اسی وقت ممکن ہو گا جب بحث و مناظرہ کے بجائے مکالمہ ہو گا۔ہم جب مکالمے کی بات کرتے ہیں تو اہل ِ جبہ و دستار ہمیں شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔بخدا یہ بات اپنے تجربے سے کہہ رہا ہوں۔ کہتے ہیں جو لوگ مکالمہ پہ زور دیتے ہیں وہ مذہب بے زار ہوتے ہیں۔اس سے یہ بات بہر حال ثابت ہوتی ہے کہ صاحبان جبہ و دستار کے نزدیک ہر مسئلے کا حل مناظرانہ جدل ہی ہے۔نہیں،مومن کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ وہ اپنے عہد کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو تا ہے۔اسلام دین ہی علم و حکمت کا دین ہے۔ہم پوری دیانت داری سے یہ سمجھتے ہیں کہ آج جب دنیا ایک ڈرائنگ روم میں سمٹ کر آ گئی ہے ہمیں مختلف ثقافتوں،تہذیبوں،مختلف ملکوں اور مختلف زبان و سماج کے نمائندوں سے مکالمہ کرنا ہے۔کیا مناظرہ کر کے ہم مغربی تہذیب کو زچ کر سکتے ہیں؟اصول یہی ہے کہ جو طاقت ور ہوتا ہے اس کی تہذیب اور ثقافت بھی غالب آتی ہے۔ہمیں اپنی تہذیب اور ثقافت کی نمائندگی کرنے کے لیے ڈائیلاگ کی ضرورت ہے، نہ کہ بحث و مناظرہ کی۔سماجی علوم کے طالبعلم جانتے ہیں کہ جن معاشروں میں بحث و مناظرہ کا رواج رہتا ہے وہاں رویوں میں انتہا پسندی ونفرت در آتی ہے،اور اس کا عملی اظہار معاشروں کوافغانستان،شام،عراق اور پاکستان بنا دیتا ہے۔ہمیں ایسے ہر رویے کی نفی کرنی ہے جو نفرت کا بیج بوئے۔
نفرت کا ہر نمائندہ زندگی کے آداب سے نا آشنا ہوتا ہے۔کیا کبھی کسی سودائی نے عقل و خرد کو گلے لگایا؟ہم جس عہد کے بندے ہیں اس عہد کا تقاضا ایک دوسرے کے دکھ بانٹنا ہے،اگرچہ ہر عہد کا یہ تقاضا رہا مگر ہم اپنے رویوں میں اپنے عہد کے ذمہ دار ہیں۔ہمیں مکالمہ کی ترویج کے لیے ایک دوسرے کا دست و بازو بننا چاہیے۔بے شک ہر انسان میں خامیاں ہوتی ہیں مگر ہماری نظر خامیوں پر ہی کیوں رہتی ہے؟اس کا جواب یہی ہے کہ یہ ہمارا معاشرتی رویہ ہے۔ہم ذمہ دارہیں اس رویے میں مثبت تبدیلی لانے کے اور اس کے لیے بہترین طریقہ دوسرے کے بارے مثبت سوچنے اور ان سے مکالمہ کرنا ہے۔مکالمہ کہاں کیا جائے؟کیسے کیا جائے؟اس کےلیے پلیٹ فارم کہاں ہے؟ان سوالوں کے جواب کے لیے آپ کو میرے اگلے کالم کا انتظار کرنا ہو گا۔

Facebook Comments

طاہر یاسین طاہر
صحافی،کالم نگار،تجزیہ نگار،شاعر،اسلام آباد سے تعلق

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply