قبلہ گاہی ” کامریڈ‘‘ نوازشریف/حیدر جاوید سید

مسلم لیگ (ن) نے اپنی ڈویژنل تنظیموں کو کامریڈ میاں نوازشریف کے استقبال کی تیاریوں کے لئے ہدایات جاری کردی ہیں۔ (ن) لیگ پنجاب کے صدر اور وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے میاں صاحب کو چوتھی بار وزرعظم بنوانے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ لیگی کارکن وطن واپسی پر اپنے محبوب قائد کا تاریخی استقبال کریں گے۔
میاں صاحب وطن عزیز کی سرزمین پر قدم رنجہ کب فرمائیں گے؟ اس سوال کا جواب اگر کسی کے پاس ہے تو وہ میاں صاحب خود ہیں ۔
غالباً ستمبر 2021ء میں ان کے نمائندگان اور وکلاء نے اس وقت کی پنجاب حکومت کو میاں صاحب کی صحت بارے جو رپورٹ بھجوائی تھی اس کے مطابق مزید علاج اور مشورے کے لئے انہیں امریکی ڈاکٹر سے رجوع کرنا ہے جس کے لئے میاں صاحب نے امریکہ جانا ہے۔
پچھلے برس انہوں نے صاحبزادی کے ہمراہ یورپی ممالک کی سیر کی۔ کچھ دن قبل دبئی میں تھے درمیان میں غالباً حرمین شریفین بھی تشریف لے گئے۔ امریکہ گئے یا نہیں یہ معلوم نہیں۔ میاں صاحب اپنی علالت کے باعث ملک سے گئے تھے انہیں ملک سے باہر بھجوانے کے اپنے فیصلے پر بعدازاں عمران خان پچھتائے بہت اور بالآخر اس روانگی کا ملبہ انہوں نے جنرل قمر جاوید باجوہ پر ڈال دیا۔
حالانکہ فائنل طبی رپورٹ اور جانچ پڑتال ڈاکٹر فیصل نے کی تھی یہ موصوف شوکت خانم ہسپتال کے سی ای او ہیں ان دنوں عمران خان کے مشیر صحت ہوا کرتے تھے۔
میاں صاحب جب ملک سے روانہ ہوئے تو وہ واقعتاً بیمار تھے۔ بیمار نہ ہوتے تو بڑے میڈیا چینلز ان کی علالت بارے نان سٹاپ اشتہاری نشریات کے ذریعے اس وقت کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے دلوں میں یہ خوف اجاگر نہ کرتے کہ ’’مریض کو بیرون ملک نہ بھجوایا گیا تو ’’گلے پڑجائے گا‘‘۔ بہرحال میاں صاحب کو اب وطن آ ہی جانا چاہیے۔
ہمارے دوست مسلم لیگ کے ایم این اے اور وفاقی وزیر بے محکمہ میاں جاوید لطیف تواتر کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ میاں صاحب کی وطن واپسی سے قبل ان سے اجتماعی معافی مانگی جانی چاہیے۔ سادہ آدمی تو بالکل نہیں جاوید لطیف پھر اس فرمائش یا مطالبہ کی ضرورت کیا تھی۔
اچھا جس اسٹیبلشمنٹ کو پچھلے برس ان کی جماعت نے اتحادیوں کے ساتھ مل کر محفوظ راستہ دیا وہ بھلا اجتماعی معافی کیوں مانگے گی؟ کیا جاوید لطیف اور ان کے ساتھی یہ نہیں سمجھتے کہ اسٹیبلشمنٹ پہلے سے کہیں زیادہ طاقتور ہوچکی ہے۔
اب تو ماشاء اللہ پراپرٹی و انڈسٹری کے بعد زراعت کے شعبہ میں بھی قدم رنجہ فرمادیا ہے اسٹیبلشمنٹ نے۔ اگلے روز ایک آئی ٹی کانفرنس میں بھی ساجھے دار کے طور پر موجود تھی اس لئے بہتر یہی ہوگا کہ اجتماعی معافی کی فرمائش اور مطالبہ کرنے کی بجائے میاں صاحب کو وطن واپس لانے کا بندوبست کیا جائے۔
(ن) لیگ والے چاہیں تو ’’وطناں تے ولوہا دل بہوں اداس ہے‘‘ ولا گیت اجتماعی طور پر الاپا کریں۔ میاں صاحب وطن واپسی کے حوالے سے کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ اگست کے آخری ہفتے میں تشریف لاتے ہیں یا ستمبر میں یہ ان پر منحصر ہے۔ امریکی ڈاکٹر سے مل کر آتے ہیں یا پھر ملنے جائیں گے یہ بھی وہی جانتے ہیں
سچ یہ ہے کہ جو وہ جانتے ہیں کوئی دوسرا نہیں جانتا۔ خیر ہم دعاگو ہی ہیں کہ میاں صاحب سوفیصد تندرستی و توانائی کے ساتھ وطن واپس لوٹیں اور اپنی جماعت کی قیادت کریں۔ انہوں نے بہت اچھا کیا تھا جب سوا سال قبل جنرل قمر جاوید باجوہ خفیہ طور پر ان سے معافی مانگنے گئے اور انہوں نے چائے پلاکر اسے رخصت کردیا تھا۔ جب جیل میں تھے تو ’’دو بڑے‘‘ ایمبولینس میں چھپ کر بھی کوٹ لکھپت جیل ان سے ملنے گئے تھے تب بھی انہوں نے کمال شانِ بے نیازی کے ساتھ سنی ان سنی کردی تھی ۔
ایک لیڈر کو خفیہ معافیوں اور ایمبولینسی منتوں ترلوں کے جھانسے میں نہیں آنا چاہیے ویسے بھی ہمارے دوست وجاہت مسعود یہ سمجھتے ہیں کہ میاں صاحب اب چی گویرا سے اگلی منزل کے رہنما ہیں ۔
ہم چونکہ وجاہت مسعود کی اردو نثر کے عاشق ہیں اس لئے اس عشق میں اتنی رعایت تو بنتی ہے کہ یہ مان لیا جائے کہ جناب قبلہ گاہی کامریڈ میاں نوازشریف واقعتاً چی گویرا سے اگلی منزل کے لیڈر ہیں۔
یہی وہ وجہ ہے کہ ہم اور فقیر راحموں دونوں یہ سمجھتے ہیں کہ کامریڈ نہ صرف واپس آئے گا بلکہ ملک کی قیادت بھی کرے گا۔ ملک ایک بار پھر ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوگا۔
مسمی اسحق ڈار بھی ترقی در ترقی کرے گا۔ اسحق ڈار کی ترقی سے کامریڈ نوازشریف ہمیشہ خوش ہوئے ہیں۔ میاں صاحب ویسے کسی کی ترقی سے نہیں جلتے کڑھتے۔ کھلے دل اور کھلے ہاتھوں والے ہیں۔ جو لے اس کا بھی بھلا جو نہ لے اس کا بھی بھلا۔
اب معلوم نہیں میاں صاحب ابھی تک دبئی میں ہی مقیم ہیں یا لندن واپس چلے گئے ہیں خیر جہاں بھی رہیں صحت و تندرستی کے ساتھ رہیں۔ ملک و قوم (ن) لیگ اور جاتی امراء کو ان کی بڑی ضرورت ہے۔
ہم امید کرتے ہیں کہ ان کی جماعت انہیں چوتھی بار وزیراعظم حسب اعلان ضرور بنوائے گی اور یہ بھی امید کرتے ہیں کہ چوتھی بار وزیراعظم بن کر وہ آرمی چیف سے پنگا ہرگز ہرگز نہیں لیں گے۔
فقیر راحموں تسلی دے رہا ہے کہ وطن عزیز سے دور میاں صاحب نے اس بار جو ماہ و سال بسر کئے ان میں انہوں نے بہت کچھ سیکھا۔ سیکھا ہوتا تو اسحق ڈار کو وزیر خزانہ بنواکر تماشے نہ لگواتے۔ اللہ کرے سیکھ سیکھا لیا ہو
خوش آئند خبر یہ ہے کہ اب انہیں لسی کی جگہ کافی پسند ہے کبھی کبھی بلیک کافی پی لیتے ہیں۔ ان کے دشمنوں نے انہیں جتنا دبانے کی کوشش کی وہ اتنا ہی ابھر کر سامنے آئے۔
ایمبولینس میں کچھ لوگوں کا چھپ کر ان سے جیل میں ملنے کیلئے جانا اور ایک سابق آرمی چیف کا رات کی تاریکی میں لندن پہنچ کر گوڈے پکڑ کر معافی طلب کرنا یہ سب اب تاریخ کا حصہ ہے۔
چلیں یہ اِدھر اُدھر کی باتاں چھوڑیں میاں صاحب کے استقبال کی تیاریاں کریں۔ یہ میاں صاحب ہی تھے جنہوں نے صدر کلنٹن کی جانب سے 4یا 7ارب ڈالر کی پیشکش ٹھکراکر ایٹمی دھماکے کردیئے تھے کوئی اور ہوتا تو ان جیسی بہادری بالکل نہ دیکھاپاتا۔ بہرحال اس وقت ملک اور قوم کو ان کی ضرورت ہے امید ہے کہ طبیعت میں جو ہلکی پھلکی گڑبڑ ہے اسے جلد سے جلد درست کراکے وہ وطن واپسی والے جہاز میں سوار ہوجائیں گے۔
جب وہ آئیں گے تب شہباز شریف ایئرپورٹ ضرور جائیں گے ماضی کی طرح مال روڈ پر گھومتے نہیں پھریں گے۔
میاں صاحب اس بار وزیراعظم بنیں تو بی اے تک تعلیم مفت کردیں نجی تعلیمی ادارے اور ہسپتال سرکاری تحویل میں لے لیں تاکہ تعلیمی و طبی تجارت تو بند ہو۔ تجاویز تو اور بھی بہت ہیں ان کا ذکر خیر اس وقت جب میاں صاحب وطن قدم رنجہ فرماکر چوتھی بار وزیراعظم کے طور پر حلف اٹھالیں گے۔
اب اگر ان تجاویز کا ذکر کردیا تو ان کا کوئی دشمن انہیں اپنے منشور میں شامل نہ کرلے اس خطرے کےباعث تجاویز سنبھال کر رکھ لی ہیں۔
قبلہ گاہی کامریڈ میاں نوازشریف کی وطن واپسی قومی اور حکومتی قیادت سنبھالنے سے ہماری ملتانی منڈلی کے قائد والا شان ملک خاور حسنین بھٹہ نہال نہال ہوں گے۔ انہوں نے ملتان کی سرزمین پر بیٹھ کر جس طرح میاں صاحب کی فراست، لیاقت، معاشی و تجارتی سوجھ بوجھ کا مقدمہ لڑا وہ اپنی مثال آپ ہے۔
یہ اور بات ہے کہ ملتانی منڈلی کے اکثر ارکان ملک صاحب کی قیادت پر تو متفق ہیں ان کے تجزیوں کے جواب میں میاں صاحب کے پتلی گلی سے دوبار ملک چھوڑ جانے کا چیزہ لیتے ہیں ۔
ملک چھوڑ ہی جانا چاہیے بلاوجہ پھٹے لگنے اور سڑک پر مرنے کا ’’فیدہ‘‘ کیا اب بھی جب میاں صاحب چوتھی بار وزیراعظم کے عہدے کا حلف اٹھائیں تو ملک سے باہر جانے کا پیشگی بندوبست ضرور کرلیں جان ہے تو جہان ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply