• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • محسن داوڑ گروپ بمقابلہ منظور پشتین اور پی ٹی ایم کا مستقبل(قسط1)۔۔عارف خٹک

محسن داوڑ گروپ بمقابلہ منظور پشتین اور پی ٹی ایم کا مستقبل(قسط1)۔۔عارف خٹک

لوگ مجھے کہتے ہیں کہ کراچی میں بیٹھ کر مجھے کیا ضرورت ہے کہ میں وزیرستان کے مسائل پر قلم اٹھاتا ہوں۔
اب ان کو کیا بتاؤں کہ میرا بچپن میرعلی شمالی وزیرستان میں گزرا ہے۔ میرعلی میں،میں نے پہلا لفظ “ماں” بولنا سیکھا۔ عادل پبلک  سکول، الہادی پبلک  سکول اور گورنمنٹ ہائیر  سکینڈری  سکول ہرمز میرے مادر علمی ہیں۔

میں اس میرعلی کو جانتا ہوں جہاں رات نو بجے خسوخیل گاؤں کی ایک شادی میں سائیکل پر بیٹھ کر گیا۔ مجھے کسی سے کوئی خطرہ نہیں تھا کیونکہ سب میرے اپنے تھے۔ گاؤں موسکی میں میرا بچپن گزرا۔ زاہد نور اور عابد نور دونوں دوست نہیں میرے سگے بھائی ہیں۔ میں ان کے گھر پلا بڑھا ہوں۔ آصف داوڑ کو میں نے اپنے ہاتھوں سے کھلایا ہے۔ میرعلی سے ہزاروں کلومیٹر دور رہ کر آج بھی میرا یہ خواب ہے کہ اسی طرح رات کو سائیکل پر نکل کر میرعلی کی سڑکوں پر مٹر گشت کروں۔

قصہ مختصر ،نائن الیون کے بعد طالبان اور فوجی آپریشنوں نے پورے فاٹا کو تباہ و برباد کرڈالا۔ زیادہ تباہی شمالی و جنوبی وزیرستان کے حصہ میں آئی۔ وطن عزیز کی خوش قسمتی کہ مذکورہ دو قبائلی ایجنسیوں میں جنگی تنظیموں کی بجائے ایسی تنظیمیں وجود میں آئیں جو پڑھے لکھے لڑکوں پر مشتمل تھیں۔ یہ تنظیمیں پُرامن احتجاجوں اور سوشل میڈیا پر اپنی تحریروں کے ذریعے اپنے اپنے علاقوں کیلئے آواز اٹھا رہی تھیں۔ شمالی وزیرستان میں “یوتھ آف وزیرستان” جس کی پشت پر مجید داوڑ جیسے پڑھے لکھے اور محب وطن نوجوان تھے،نے اپنا مقدمہ بھرپور طریقے سے لڑنا شروع کیا۔ دوسری طرف جنوبی وزیرستان میں “محسود تحفظ موومنٹ” جن کی پشت پر حیات پریغال جیسا نڈر، محب وطن اور پڑھا لکھا جوان تھا، بھرپور طریقے سے اپنا مقدمہ لڑا۔

نقیب اللہ محسود کی شہادت کے بعد جب اسلام آباد میں “محسود تحفظ موومنٹ” کا دھرنا شروع ہوا تو شمالی وزیرستان سے “یوتھ آف وزیرستان” اس دھرنے میں “محسود تحفظ موومنٹ” کی مدد کو آپہنچی۔ مختلف سوچ اور مکتبہ فکر کے لوگ دھرنے میں حاضری دینے پہنچ گئے۔ جس میں پاکستان کی تقریباً ساری سیاسی جماعتیں بھی پہنچ گئیں۔ مگر بدقسمتی سے وہاں بلوچستان کی پشتون پٹی سے ایک قوم پرست جماعت کے جذباتی اراکین نے جو طوفان بدتمیزی مچایا۔ تو مولانا فضل الرحمن جیسے پشتون لیڈر نے بھی اس دھرنے سے اپنے ہاتھ کھڑے کرلئے۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے غالبا ًدھرنے کا تیسرا دن تھا جب مجید داوڑ نے منظور پشتین کو آواز دے کر کنٹینر سے نیچے بلایا اور کالے کپڑوں میں ملبوس ایک “غیر مقبول شخص” کا منظور سے تعارف کرایا تو منظور نے  سٹیج پر اس کالے کپڑوں میں ملبوس بندے کو اپنے ساتھ  سٹیج پر جگہ دی۔ کالے کپڑوں میں ملبوس یہ شخص کوئی اور نہیں محسن داوڑ تھا۔ یہاں سے پشتون تحفظ موومنٹ نے جنم لیا۔
تحریک نے پانچ مطالبات سے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ مگر سیاسی تربیت سے نابلد، غیر سنجیدہ رویہ اور جذباتی نعروں کی وجہ سے وہ مطالبات آج تک نہیں مانے گئے ہیں۔

محسن داوڑ کی بدنیتی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ عوامی نیشنل پارٹی کا یہ سرگرم کارکن کن مقاصد کو پورا کرنے اس تنظیم کا حصہ بنا۔ سب سے پہلے اپنی چرب زبانی سے منظور پشتین کو آہستہ آہستہ مخلص ساتھیوں سے دور کرتا گیا۔ پھر آہستہ آہستہ عوامی نیشنل پارٹی کے سرکردہ لوگوں کو پی ٹی ایم کے پلیٹ فارم پر جمع کرتا گیا۔ یہ وہ لوگ تھے جن کے انداز سیاست سے پشتونوں کی بڑی تعداد نفرت کرتی ہے۔ آہستہ آہستہ تحریک میں مذہب پرستوں کو ایک طرف کرنا شروع  کردیا گیا اور اینٹی پاکستان کے غیر مقبول اور قوم پرستوں کے برسوں پرانے مقبول نعروں نے تحریک میں اپنی جگہ بنانی شروع کردی۔

علی وزیر اور محسن داوڑ کی خود اعتمادیاں اتنی بڑھ گئیں کہ قومی انتخابات کے موقع پر منظور کی تحریک کے غیرپارلیمانی رہنے کی بات نہیں مانی گئی۔ علی وزیر اور محسن داوڑ PTM کے مقبول گھوڑے پر سوار ہوکر فوراً  اسمبلی جا پہنچے۔ شمالی وزیرستان میں “یوتھ آف وزیرستان” نے قومی انتخابات میں جس بھرپور انداز سے محسن داوڑ کو سپورٹ کیا وہ دن سب کو یاد ہیں، مگرجب صوبائی الیکشن میں یوتھ آف وزیرستان نے اپنے لڑکے (جو محسن داوڑ کے سپورٹر تھے) کو آگے لانا چاہا تو محسن نے PK-111 میں اپنے دوست جمال داوڑ (جو FSP این جی او کا ایک کرپٹ ملازم تھا) اور PK-112 سے اپنے دوست میرکلام وزیر (جو پولیو ورکر تھا) کو سامنے لیکر آگیا۔ محسن داوڑ کی خودغرضی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ انھوں نے اپنے محسنوں کو بھی نہیں بخشا۔ یوتھ آف وزیرستان نے تین دفعہ پشتون ولی کی “نناواتے” کی اور ان کے گھر گئے کہ علاقائی مفاد کی خاطر قبائلی اتحاد کو سبوتاژ نہ کریں مگر محسن نہیں مانا۔

مارچ 2020 میں بلدیاتی انتخابات ہونے تھے ،چنانچہ مارچ سے پہلے ہی محسن داوڑ PTM کو پارلیمانی بنانے، تحریک کی غیر پارلیمانی حیثیت ختم کرکے ایک سیاسی پارٹی بنانے کیلئے منظور سے دست و گریبان ہوچکا تھا۔ تاکہ وہ اپنے سیاسی جماعت (ANP) کو PTM کی مقبولیت کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو کر سیاست میں قدم جمانے میں ان کی مدد کرسکے۔ بہرحال بلدیاتی انتخابات میں حکومت نے تاخیر کی۔ اب جب کہ انتخابات پھر سے قریب آ رہے ہیں تو گزشتہ تین ہفتوں سے محسن داوڑ، منظور پشتین سے ایک فریق کی حیثیت سے جرگوں کے ذریعے معاملات طے کرنے میں مصروف ہے کہ PTM کو ہر لحاظ سے پارلیمانی کردو۔ جبکہ منظور پشتین ان کی یہ بات مان نہیں رہا، حتی کہ بات گالی گلوچ اور ذاتی کردارکشی تک پہنچ چکی ہے۔

“محسن داوڑ گروپ” افراسیاب خٹک، بشری گوہر اور لطیف آفریدی جیسے چہروں کو نئی پارلیمانی PTM میں اہم عہدے دینے کی زبان کرچکا ہے۔ بالفرض مخالفت بڑھنے کے ڈر سے مذکورہ افراد کو عہدے نہ دے سکا تو بھی PTM کا ریموٹ کنٹرول محسن داوڑ اور مذکورہ چہروں کے پاس ہی ہوگا۔ منظور پشتین کی حیثیت PTM میں وہی ہوگی جو موجودہ ہے۔ مگر اس کو اتنا کمزور کردیا جائیگا کہ جب بھی نامساعد حالت کا سامنا کرنا ہوا تو منظور کو فی الفور اس کے موجودہ عہدہ سے ہٹا دیا جائیگا۔ یہ سب محسن گروپ کی دیدہ دلیری اور پلاننگ کی وجہ سے نہیں ہوگا بلکہ منظور پشتین کے مفاہمت پرستانہ رویہ کی وجہ سے ممکن ہوگا۔

منظور پشتین کی مفاہمت پرستانہ اور نرم رویہ کی وجہ سے علی وزیر اور محسن داوڑ کی دیدہ دلیری دیکھیں کہ “خڑ کمر” جیسے سنگین جرم کا ارتکاب ان دونوں صاحبان نے کیا، لوگوں کو فوج کے آمنے سامنے کروا کر مروایا اور جب ان دونوں کو جیل بھیج دیا گیا تو علی وزیر کے خاندان نے منظور کو ماں بہن کی گالیاں تک دیں کہ علی وزیر کو چھڑواؤ۔

ہم لوگوں نے جرگہ پاکستان کے پلیٹ فارم سے حکومت، فوج اور تحریک کیلئے دو نشستوں کا انتظام کیا۔ وہ ایک الگ قصہ ہے۔ مصدقہ ذرائع کے مطابق یہی محسن داوڑ تھا جس نے منظور پشتین کو جرگہ میں بیٹھنے سے منع کردیا۔ حالانکہ اس نشست کیلئے منظور نے خود حامی بھری تھی۔

سوال تحریک کے پارلیمانی اور غیر پارلیمانی ہونے کا نہیں، سوال فائدہ اور نقصان کا بھی نہیں یہ منظور پشتین جانے اور اسکے ساتھی مگر میرے لئے شمالی اور جنوبی وزیرستان کا امن بہت اہم ہے۔ اگر PTM درست طریقے سے چلتی اپنے محسنوں “یوتھ آف وزیرستان” اور “محسود تحفظ مومنٹ” کیساتھ دشمنیوں کی ریت نہ ڈالتی تو   امن کا یہ قافلہ بہ احسن خوبی اپنی منزل تک پہنچ سکتا تھا۔ آج شمالی وزیرستان میں طالبان دوبارہ سر اٹھانے لگے ہیں۔ حالیہ فوج کے تصادم میں دونوں فریقین کا کافی جانی نقصان ہوچکا ہے۔ مجھے وزیرستان میں آئندہ حالات کچھ اچھے نہیں لگ رہے۔

محسن داوڑ کی دیدہ دلیری کے پیچھے ایک ہی “شخص” ہے۔ جو بین الاقوامی میڈیا پر محسن داوڑ کے انٹرویو ۔منعقد کروا کر محسن داوڑ کی میڈیا پروفائلنگ کررہا ہے۔ یہی شخص محسن داوڑ کی مقبولیت کا گراف منظور سے اوپر لے جانے میں کافی حد تک کامیاب بھی ہوچکا ہے۔اور آج محسن کی پشت پر کھڑے ہو کر PTM کو پارلیمنٹ میں زبردستی داخل کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
کافی یار دوست تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ محسن داوڑ کو اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے بھرپور مدد دی جارہی ہے تاکہ پی ٹی ایم کے برانڈ کو سیاسی بنا کر دوبارہ عوامی نیشنل پارٹی کی مونوپولائزیشین کو کامیاب کیا جاسکے۔

اگلی قسط میں اس میڈیا کنگ میکر پر تفصیل سے بات کریں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”محسن داوڑ گروپ بمقابلہ منظور پشتین اور پی ٹی ایم کا مستقبل(قسط1)۔۔عارف خٹک

  1. Araf bhi..
    Al Ahamd public school Mir Ali aor Shakir Ktk k Walid Mustaqeem ustad marhoom ko be ap jantay howngy…..mai na be chand dino k liay 2002 mai Hasso Khail ky public school mai teaching ke thi..

  2. میسینجر میں کسی دوست نے ایک کالم “محسن داوڑ گروپ بمقابلہ منظور پشتین اور پی ٹی ایم کا مستقبل” بھیجا ہے جو عارف خٹک نامی کسی بندے نے لکھا ہے. عارف خٹک کے کالم میں جو تجزیہ پیش ہوا ہے اس کے ساتھ متفق ہونا یا اختلاف رکھنا ہر ایک کا ذاتی معاملہ ہے لیکن ساتھ ہی عارف خٹک نے اپنے تجزیے کو پیش کرنے کے لئے جن حقائق کا سہارا لیا ہے اس پر میں اپنی رائے پیش کرتا ہوں.
    1. عارف خٹک کہتا ہے کہ اسلام آباد میں دھرنہ کے تیسرے دن مجید داوڑ کی وساطت سے منظور اور محسن قریب ہوئے اور محسن کو سٹیج پر جگہ دی گئی، عارف خٹک ایسا تاثر دے رہا ہے جیسے منظور پشتین اور محسن داوڑ اس سے پہلے ایک دوسرے سے ناآشنا تھے اور مجید داوڑ ان کے تعارف کا سبب بنا. یہ بات غلط ہے. میں خود منظور پشتین کے لانگ مارچ والے قافلے کا حصہ تھا، محسن داوڑ پشاور سے منظور کے ساتھ لانگ مارچ پر اپنی گاڑی کو لے کر روانہ ہوئے تھے، اور صوابی میں تقریر بھی کی تھی، میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ منظور پشتین اور محسن داوڑ اسلام آباد دھرنہ کے تیسرے دن ایک دوسرے سے نہیں ملے بلکہ لانگ مارچ میں بھی اکٹھے تھے. اور ایک دوسرے کو پہلے ہی سے جانتے تھے.
    2. دوسری بات عارف خٹک کہتے ہیں کہ اسی دن سے محسود تحفظ موومنٹ پشتون تحفظ موومنٹ میں بدل گئی، یہ بات بھی غلط ہے. میں ایسے دو بندوں نعمت وزیر اور احمد انقلابی پشتین کو جانتا ہوں جنہوں نے جنوری 2017 میں منظور پشتین سے درخواست کی تھی کہ محسود تحفظ موومنٹ کو پشتون تحفظ موومنٹ میں بدل دو، جب منظور پشتین کا لانگ مارچ والا قافلہ پشاور سے ہوتے ہوئے صوابی پہنچا تو وہاں پر منظور کی تقریر کے دوران لیاقت یوسفزئی نے یہ نعرہ لگایا کہ یہ اواز جو منظور پشتین لے کر ایا ہے یہ صرف وزیرستان کی اواز نہیں بلکہ ہر پشتون کی اواز ہے اور پشتون تحفظ موومنٹ کا نعرہ لگایا. یعنی منظور کا قافلہ ابھی اسلام آباد دھرنہ کی جگہ پہنچا ہی نہ تھا کہ پشتون تحفظ موومنٹ کی شکل اختیار کر گیا تھا.
    3. اور تیسری بات عارف خٹک ایسے تاثر دے رہا ہے کہ اسلام آباد میں دھرنہ دینے کا فیصلہ منظور پشتین اور محسود تحفظ موومنٹ کا تھا جس کو یوتھ اف وزیرستان کی تائد بھی حاصل تھی. شاید عارف خٹک کو پتہ نہیں کہ جولائی 2017 میں پختونخوا اولسی تحریک نے باقاعدہ طور پر سوشل میڈیا اور عملی روابط کے زریعے سابقہ قبائلی علاقہ جات کے مختلف تنظیموں کو احتجاج اور دھرنہ دینے کی صورت میں اپنی تعاون کی یقین دہانی کرانی شروع کی تھی. اور اس کے ساتھ ساتھ عوامی ورکر پارٹی کے سرکردہ رہنماؤں جیسے عصمت شاہ جہان نے سپٹیمبر 2017 میں وزیرستان سے اٹھنے والی آوازوں کو باقاعدہ طور پر سپورٹ کرنا شروع کیا تھا. اور احتجاج اور دھرنہ کی حمایت کی تھی. پختونخوا اولسی تحریک اور عوامی ورکر پارٹی کے سرکردہ مقامی رہنما پشاور میں منظور پشتین سے ملے بھی تھے. بلکہ یہاں تک کہوں کہ پشتون تحفظ موومنٹ کے جو پانچ مطالبات تھے وہ پشاور میں سابقہ پولیس افسر رحمت خان محسود کے گھر پر میں نے خود لکھے جس کو عتیق الم وزیر نے بحث کے لئے منظور پشتین کے قافلے کے سامنے پڑھے اور اتفاق کے بعد ڈاکٹر سید الم محسود کے حوالے کئے. ڈاکٹر سید الم محسود نے اگلے دن ان پانچ مطالبات کی ہزاروں کاپیاں پرنٹ کی.
    Akhtar khan wazir

Leave a Reply