کیا مولانا “حسینی منہج” نباہ سکیں گے؟۔۔۔۔سلیم جاوید

مولانا فضل الرحمان سے میرا برسوں پرانا ” ناسٹلجیا” وابستہ ہے-

ایک ماہ پہلے، جب ایک پرسکون، مطمئن اور قہقہہ بار پریس کانفرنس میں مولانا نے 27 اکتوبر 2019 کوحکومت کے خلاف “آزادی مارچ” کا اعلان کیا تووقت مجھے 35 برس پہلے کی ایک سہ پہرمیں لے گیا-

شہرڈیرہ اسماعیل خان، باکھری بازار، گلی ڈبہ تباخی میں ایک گھر کی چھوٹی سی بیٹھک ہے- نوجوان فضل الرحمان، جیل سے رہا ہوکرآئے ہیں- یاد پڑتا ہے کہ مولانا کے پہلو میں خواجہ زید، حکیم کلیم اللہ اور حاجی مہربان تشریف فرماتھے- آج ہی کی طرح، پرسکون، مطمئن اور تبسم بہ لب لہجے میں مولانا نے اعلان کیا تھا” کل پوندہ بازار سے جنرل ضیاء کے خلاف جلوس نکالا جائے گا”-

یہ غالبا” 1983 یا84 کی بات ہے- ملک پر جنرل ضیاءکا پراسراراورگھمبیرمارشل مسلط تھا- ہرطرف سناٹا طاری تھا- جنرل ضیاء کے خلاف ایم آرڈی کے نام سے جو محاذ بنا تھا اس میں افرادی قوت کے لحاظ سے تین پارٹیاں اہم تھیں-پیپلز پارٹی، مولانا نورانی اور جمیعت علماء اسلام-مگر “مسکین اور باخلاق” جنرل ضیاء نے ہرپارٹی میں نقب لگالیا ہواتھا-

پیپلز پارٹی کے” بے وفا انکل گروپ” کو جنرل نے اپنی حکومت میں شامل کررکھا تھا اوراس وقت کی بے نظیر، آج کی مریم کی طرح، ملک بدری کی ٹھوکریں کھارہی تھی-چنانچہ پپیلز پارٹی کا ورکر، جذباتی اور جانثارہونے کے باوجود، بن ماں کے بچے کی طرح، گلیاں ناپتا پھرتا تھا- مولانا نورانی کی پارٹی مضبوط تھی مگرایک تووہ خود عمررسیدہ تھے پھرانکے دستِ راست یعنی مولاناعبدالستار نیازی کی قیادت میں ایک بڑا دھڑا ان سے جدا کیا جاچکا تھا-

الغرض ایم ارڈی کے لیڈروں میں سے صرف نوجوان فضل الرحمان ہی متحرک تھا- آج توصرف مولانا طارق جمیل کے قبیل کے چند لوگ، مولانا کے خلاف استعمال ہورہے ہیں مگر نوجوان فضل الرحمان کے مقابل اس زمانے کے تقریبا” سارے ناموردیوبندی “علمائے کرام” مورچہ زن ہوگئے تھے-

اس زمانے میں یہ خاکسار، اپنے شہرسے دورکیڈٹ کالج کوہاٹ میں نویں جماعت کا طالبعلم ہواکرتا تھا- ہمارے کالج میں ٹی وی کی سہولت میسر نہیں تھی- صرف مشرق اور”دی مسلم” اخباراآیا کرتے تھے- مگراس زمانے کے اخبارات پرجماعت اسلامی کے لکھاری دانشور، مارشل لاء کا بھونپوبنے ، چھائے ہوئے تھے- نویں جماعت کے طالبعلم کوجمہوریت وآمریت کی کیاخبر؟ مگریہ کہ دل میں جنرل ضیاء سے نفرت ابھرآئی  تھی- کیوں؟- اسکا بھی سبب معلوم نہیں- بس یہی درد کا ناطہ تھا کہ “ایم آرڈی” سے وابستہ ہر لیڈر، اپنا ہی لیڈر لگتا تھا-

چھٹیوں میں گھرآیا تو ہمارے امام مسجد کے ایک دوست قاری اشرف صاحب نے پوچھا” مولانا فضل الرحمان کوکبھی دیکھا ہے؟”- میں نے کہا “نہیں”- انہوں نے کہا کہ وہ کل جیل سے واپس آئے ہیں اور شاید کل واپس جیل میں ہونگے- ملنا ہے تو موٹرسائیکل اٹھاؤ، آج باکھری بازار میں میٹنگ ہورہی ہے”-

ہم نے جنرل ضیاء کے مقابل، مولانا کا وہ جلالی انداز دیکھا ہوا ہے جسے میں ” حسینی منہج” کا نام دیتا ہوں- جنرل ضیاء کے دور میں مولانا، کل ملا کرتین سال جیل کی” بی کلاس” میں قید رہا- مگر اسکے بعد سے اگلے 30 سال تک مولانا مفاہمتی سیاست کرتا رہا ہے (س مفاہمتی سیاست کو میں امام حسن کی نسبت سے “حسنی منہج ” کہا کرتا ہوں)-

آج ملک میں جنرل باجوہ کا مارشل لاء مسلط ہے- یہ مارشل لاء ، جنرل مشرف اور جنرل ضیاء کا مرکب بھی ہے اوردونوں سے زیادہ خطرناک بھی ہے کہ اب عدالتوں کو کھلے بندوں، واٹس ایپ سے کنٹرول کیا جاتا ہے-ان حالات میں مولانا، ایک بار پھرخم ٹھونک کرمیدان میں آیا ہے- مگر یہ کہ اتنا عرصہ آرام طلبی کے بعد تو شیر بھی شکار کرنا بھول جایا کرتا ہے-

آج مولانا کی عمر بھی ڈھل گئی ہے اور وقت بھی بدل گیا ہے –

جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کے پاس صرف ڈنڈا ہوتا تھا- آج کے سامری کے پاس کئی بچھڑے ہیں- سوشل میڈیا پہ ہی نہیں، الکٹرانک میڈیا پہ بھی عامرلیاقت حسین جیسے ہزاروں بھانڈ موجود ہیں جوکردارکشی کے ماہر ہیں- چونکہ اس” پیرفرتوت” کیلئے بھی آج اپنی بقاء کی آخری جنگ ہے لہذا اس آزادی مارچ کو ناکام بنانے کیلئے ہرغیرقانونی وغیراخلاقی حربہ اختیار کیا جائیگا-

ان حالات میں ، آگے کا سفربڑا کٹھن ہوگا- کیا مولانا ،”حسینی منہج” دوبارہ نبھا سکیں گے؟-

اس سوال کا جواب میں اپنے اندر پاتا ہوں- آج سے 35 برس پہلے ایک نوعمر لڑکا، باکھری بازار کی میٹنگ میں ایک کونے میں کھڑا تھا- اس وقت جلوس کا اعلان سن کراس لڑکے کے اندر جوحرارت بھرگئی تھی- آج بعینہ وہی حرارت، اکتوبرکے آزادی مارچ کا اعلان سن کراپنے اندر پاتا ہوں-

اس مملکت خداد کو”پیرتسمہ پا” سے نجات دلانے اور زخم زخم پاکستانی قوم کو”ان دیکھے ڈریکولا” سے چھٹکارا دلانے، ایک بار پھرمیدان کربلا سجنے لگا ہے- اور یہ کہ اگر سپاہی کا حوصلہ نہیں ٹوٹا تو لیڈر کیسے بددل ہوسکتا ہے؟-

ہم مولانا کو بہ الفاظ فیض، یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ:

کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں ، کب ہات میں تیرا ہات نہیں
صد شکر کہ اپنی راتوں میں، اب ہجر کی کوئی رات نہیں

مشکل ہیں اگر حالات وہاں ، دل بیچ آئیں جاں دے آئیں
دل والو! کوچۂ جاناں میں کیا ایسے بھی حالات نہیں؟

جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے ، اس جاں کی تو کوئی بات نہیں

میدان وفا دربار نہیں- یاں نام و نسب کی پوچھ کہاں؟
عاشق تو کسی کا نام نہیں، کچھ عشق کسی کی ذات نہیں

Advertisements
julia rana solicitors

گر بازی عشق کی بازی ہے، جو چاہو لگا دو ڈر کیسا؟
گر جیت گئے تو کیا کہنا، ہارے بھی تو بازی مات نہیں!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply