اپنا فرض نبھانا ہوگا۔۔۔محمد شمس

ایک لڑکا پارک میں بیٹھا ہوا ان نوجوانوں کو دیکھ رہا تھا جو ایک گیند کے پیچھے دوڑے چلے جارہے تھے، پھر لڑکے کی نظر اُس نوجوان  پر بھی پڑی، جو بلّے کو  مضبوطی سے پکڑ کر آتی ہوئی گیند کو زور سے مارتا ہے۔ ان میں سے ایک لڑکا اس گیند کی طرف دوڑتا ہے۔ پاس کھڑا ہوا گولے  گنڈے والا اس انتظار میں ہوتا ہے کہ کب یہ تھکے ہوئے نوجوان اپنے خشک  حلق  کو ٹھنڈک دینے کے لیے میری طرف آئیں گے اور میں ان نوجوانوں کو ٹھنڈک کا احساس دلاؤں جو بہت تیز دھوپ میں گیند کے پیچے دوڑ رہے ہیں۔

پھر اس لڑکے نے دیکھا،قریب ہی پانچ لڑکے ایک ساتھ بیٹھ کر  گپ شپ لگا  رہے تھے۔  ان میں سے تین نوجوان ہاتھوں میں سگریٹ لیے کش بھی لگا رہے تھے۔ وہ پانچوں نوجوان اپنی باتوں میں مگن تھے کہ ان کے پاس ایک بوڑھا شخص آیا، جس کے ہاتھوں میں بہت بڑا تھیلا تھا، وہ بوڑھا شخص ان لڑکوں کو کہنے لگا کہ،آپ کے پاس جو سگریٹ کے پیکٹ پڑے ہوئے ہیں وہ  سب اس تھیلے میں ڈال دیں۔
ان میں سے ایک نوجوان نے پیکٹ کو اٹھایا اور اسے تھیلے میں ڈال دیا پھر وہ بوڑھا شخص قریب رکھے ہوئے کوڑا دان میں تھیلے کو ڈالنے لگا۔
یہ دیکھ کر لڑکے کو افسوس ہوا اور وہ وہاں سے باہر کی طرف نکل گیا۔ اب وہ منظر نوجوان کے دل میں گھر کر چکا تھا۔ اسے اپنے راستے میں ہر جگہ کچرا ہی کچرا نظر آرہا تھا۔ وہ  گھر  آکر بیٹھ گیا، اور سوچنے لگا کہ ۔۔۔
کیا میں اتنا مصروف ہوں کہ اپنے آس پاس کی گندگی  کو نہیں دیکھ سکتا؟
کیا میں اپنے تعلیمی ادارے میں بیٹھ کر پڑھ رہا ہوں؟
آخر میں کیا پڑھ رہا ہوں۔۔۔۔؟
کیا میری تعلیم مجھے یہ سکھاتی ہے کہ میں اپنے آس پاس کی گندگی  کو نظر انداز کروں۔۔ کیا اس گندگی کو صاف کرنا میری ذمہ  داری نہیں؟
ایک بوڑھا شخص پارک میں آج بھی اپنی ذمہ داری پوری کررہا ہے، تو میں نوجوان ہو کر یہ کام کیوں نہیں کررہا؟

Advertisements
julia rana solicitors london

اس لڑکے  کے دل میں  عجیب سی بے چینی گھر کر چکی تھی۔ لڑکے نے جیب سے موبائل نکالا اور اپنے دوست کو میسج کیا جس میں لکھا تھا:
“تم اپنے گھر کے باہر آجاؤ میں تمہاری طرف آرہا ہوں۔”
جب وہ لڑکا اپنے دوست کے گھر کی طرف پہنچا تو اس نے دیکھا کہ،اس کا دوست پہلے سے ہی گھر کے باہر کھڑا ہوا ہے اور اس کے ساتھ ایک نوجوان شخص بھی موجود ہے۔
اس نوجوان شخص نے مجھے دیکھتے ہی سلام کیا میں نے جواب میں وعلیکم السلام کہا۔
لڑکے کے دوست نے ان دونوں کا آپس میں تعارف کروایا، اور بتایا کہ یہ میرا بہت ہی اچھا دوست ہے۔ یہ فلاح مسجد کا مؤذن ہے۔ اس کی آواز بھی بہت خوبصورت ہے۔
لڑکے نے کہا: بہت خوب
پھر دوست نے اس لڑکے سے کہا
میں جارہا ہوں مؤذن صاحب کے گھر کی طرف، تم چلو گے!
لڑکے نے کہا،
ہاں، ضرور!
لڑکا اور اس کا دوست، مؤذن صاحب کے ساتھ ان کے گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔ وہ لڑکا اپنے دوست کے ساتھ مؤذن صاحب کے گھر کی طرف جب پہنچ جاتا ہے تو دیکھتا ہے کہ کچرے کے ڈھیر نے مؤذن صاحب کے گھر کو بھی نہیں چھوڑا۔۔۔
لڑکے نے مؤذن صاحب سے کہا،
اتنا کچرا آپ کے گھر کے آس پاس ہے، آپ اس ڈھیر کو اٹھاتے کیوں نہیں؟
مؤذن صاحب نے کہا،
پھینکتا کوئی اور ہے، تو میں کیوں اٹھاؤں۔۔۔
لڑکے نے کہا،
آپ جب سلام کرنے میں پہل کرتے ہیں تو پھر آپ یہ کچرا اٹھانے میں پہل کیوں نہیں کرتے؟
مؤذن نے کہا،
ایسا نہیں ہے! میں ہر اتوار کو سمندر کے ساحل میں جاکر وہاں کے کوڑے  دان کو صاف کرتا ہوں۔۔۔
لڑکا  یہ بات سن کر کہتا ہے،
خود آپ کچرے کے ڈھیر میں رہ کر دور کسی سمندر کے ساحل کا کچرا اٹھانے کے لیے جاتے ہیں؟؟
لڑکے نے اپنے بات جاری رکھتے ہوہے مزید کہا،
“میں نے آج پارک میں ایک بوڑھے شخص کو کوڈا دان صاف کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس پارک میں بہت سارے نوجوان تھے، مگر ان میں سے کسی نے بھی اس کام میں شمولیت نہیں کی۔ اس بوڑھے شخص نے تو یہ نہیں سوچا کہ پھینکنے والا کوئی اور ہے، تو میں کیوں اٹھاؤں۔۔۔؟
اگر وہ بوڑھا شخص بھی ایسا ہی سوچتا، تو شاید وہ نوجوان وہاں کبھی نہ آتے اور وہ پارک ویران ہو جاتا۔۔۔
افسوس! کہ کچرا پھینکنے والے بہت ہیں مگر اسے اٹھانے والا کوئی نہیں”
یہ کہہ کر وہ لڑکا وہاں سے چلا گیا۔۔۔ مؤذن اور اس کا دوست وہاں پر خاموش سے کھڑے اپنے اردگرد پھیلے ہوئے کچرے کے ڈھیر کو دیکھ کر شرمندہ سے ہونے لگے، اچانک تیز ہوا کا ایک جھکڑ کچرے کو اُڑاتا ہوا چلنے لگا اور وہ دونوں اس کچرے سے اپنے آپ کو بچاتے ہوئے گھر کے اندر چلے گئے!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply