اللہ حافظ میرے ۳۰ سالہ ساتھی۔۔۔ روبینہ قریشی

آج امتیاز نے 212158 والا نمبر بند کروا دیا

مجھے آج تک یاد ہے جب پہلی مرتبہ لینڈ لائن نمبر لگنا تھا اور اس کا ڈیمانڈ نوٹس مل گیا تو سرتاج نے ملنے والوں کے توسط سے یہ نمبر لیا تھا
ہمارے گھر کا نمبر 58 اور ہمارے فون کا نمبر بھی 58 ہی تھا
پچھلے 30 سال سے ہمارا یہی نمبر چل رہا ہے حتی کہ جب ہم نے نیا گھر بنایا اور اس میں شفٹ ہوئے تو یہی نمبر ساتھ لے کے گیے

کل جب سرتاج نے بتایا کہ آج نمبر بند کروانے جا رہا ہوں تو لگا جیسے زندگی کا ایک باب بند ہونے جارہا

ہم زندگی کی چیزوں سے آہستہ آہستہ دور ہوتے جاتے ہیں اور پھر ایک دن آخر کار زندگی سے ہی دور ہو جاتے ہیں
پہلے باپ کا گھر چھوڑا… سسر کے گھر آئی
پھر شوہر نے اپنا گھر بنایا جب تک گھر بنتا رہا ایک سال تک ہرروز رات کو یہی سوچتے ہوئے سوتی تھی کہ گھر کا نقشہ کیسا ہو، اسکی سجاوٹ کیسی ہو، اس کے کلر کمبینیشن
کیا ہوں.. یہ زندگی کا کیا خوبصورت زمانہ تھا

جب آنکھوں میں خواب تھے، جذبے جوان تھے، جسم میں طاقت تھی، دماغ فریش تھا.. زندگی کا مقصد میرے بچوں اور ان کے روشن مستقبل کے بڑے گول میرے سامنے تھے
اسی فون پہ مجھے بھائی ممتاز نے سیکنڈری بورڈ کے دفتر سے کال کر کے بتایا تھا کہ بڑے بیٹے نے میٹرک میں شاندار کامیابی حاصل کی ہے.. اس وقت تک شائد ہی کسی نے اس سے زیادہ نمبر لیے تھے
پھر جب وہ ISSB پاس کر کے چلا گیا اور میں بہت رویا کرتی تھی… تو جس دن اس کی ڈیوٹی ہوتی فون پہ اس رات میں 1 بجے کے بعد اس کو کال کر کے اس سے چند باتیں کر کے خوش ہو جاتی تھی

اور مجھے یاد ہے جب ٹریننگ کے پہلے مہینوں میں عید پہ اس نے چھٹی آنا تھا تو اپنے ٹاؤن کے چوک میں رکشے سے اتر کے اس نے گھر کال کی
فون میں نے اٹھایا
“امی میری چھٹی کینسل ہو گئی ہے،،
ایکدم میرا دل ڈوب گیا لیکن میں نے اسے کہا
” چلو کوئی بات نہیں، چھٹیاں پھر آجائیں گی،،
اور فون بند کر کے منہ پہ ہاتھ رکھ کے آنسوؤں کو بیٹیوں سے چھپا رہی تھی.. جب اچانک بیٹا اندر داخل ہوا
“مجھے تو بڑے حوصلے دے رہی تھیں امی جان… اب خود رو رہی ہیں،،
اور میں جو آنسووں کو روکنے کی کوشش کررہی تھی ایکدم سے موسلا دھار رونا شروع ہوگیی
” تم بہت برے ہو، بھلا ایسے کرتے ہیں،،

اور جو پورے محلے کے فون ہمارے گھر آتے تھے اور کبھی شکر دوپہر تو کبھی یخ بستہ راتوں کو بچے لوگوں کو ان کے گھروں سے بلا کے فون سننے کیلئے لے کے آتے

اور ہر سال یکم اپریل کو کسی نہ کسی کو جھوٹ بول کے کہتے کہ آپ کی کال آئی ہے.. اور پھر آنے والے کے ساتھ مل کے خوب ہنستے
اور ہھر سارے بچوں کے رشتوں کا سارا ہوم ورک اسی فون پہ ہوا

کبھی رشتہ لینے والی کزنز مجھے لمبی کالیں کرتیں تو کبھی میں انہیں کال کرتی جن بیٹیوں کو میں اپنے گھر لانا چاہتی تھی

جیسے ریل کی سیٹی، برسات کی رات، موتیا کی خوشبو، سردیوں کی شام کا اپنا ہی ایک فسوں ہوتا ہے

اسی طرح لینڈ لائن فون کی بیل کی بھی اپنی ہی ایک کشش ہوتی تھی..

صبح سویرے اماں اور نورین بہن کی کال کا انتظار ہوتا تھا..
سہ پہر کو سہیلیوں کے فون کا ٹائم ہوتا تھا، رات کو دوسرے ممالک یا شہروں میں پڑھنے والے بچوں کی کال ہو تی تھی یا بھائی اظہر کی لاہور سے کال ہوتی تھی

بلکہ اماں تو اکثر جب مجھے مل کے جانے لگتیں تو کہتیں کہ گھر جا کے پھر کال کروں گی.. پھر سن لینا

اور میں دل ہی دل میں ہنس پڑتی.. کہ ابھی تو ڈھیر ساری باتیں کی ہیں. شام تک پھر کونسا سٹاک اکھٹا ہو جانا؟؟؟

اور جب فیملی میں کوئی منگنی وغیرہ ہوتی تو پھر سارا دن فون آرہے ہیں، فون جا رہے ہیں..

اور جب بڑی بیٹی کی رشتے کی بات بابر کے والد صاحب کے زہن میں تھی تو ایک دن بابر کو ساتھ لے کے آئے اور کہا..
” یہ دونوں بچوں کا ایم، اے انگلش ہے.. بابر نے کچھ پڑھائی کا پوچھنا تھا تو اس لئے زرا بیٹی کو تو بلوا دیں،،

تھوڑی سی بات چیت کے بعد گھر چلے گیے اور دوسرے دن بابر کی کال آ گیی.. فون میاں صاھب نے اٹھایا
” انکل.. زرا مریم سے بات کروا دیں،،

اور انکل اتنے بھولے کہ بیٹی کو بلا کے فون ہاتھ میں پکڑایا
” پتر.. یہ بابر نے کچھ پوچھنا ہے،،

جب مجھے پتہ چلا کہ یہ معاملہ ہے تو میاں صاحب کو سختی سے بتایا کہ ایسے بیٹیوں کی پرائے لڑکوں سے بات نہیں کرواتے.. (یہ ہمارا اپنا گھر کا ماحول)
دو دن بعد پھر کال آگیی.. اب کے فون میں نے اٹھایا اور کہا
” بیٹا آئندہ فون نہ کرنا.. کچھ نوٹس چاہییں ہیں تو اپنے ابا کو بھیج کے منگوا لیں
اور اگلے دن ابا نوٹس لینے کی بجائے رشتہ لینے آگئے

اور اب زندگی کے اس موڑ پہ ایک مرتبہ پھر شوہر کا گھر چھوڑ کے بچوں کے ساتھ ہوں

پچھلے تین سال سے سرگودھا والا گھر بند ہے،

فون پہ شاید کبھی میری سہیلیوں کے فون آتے ہوں گے.
. یا شاید بچوں کے دوست جب سرگودھا آتے ہوں گے تو فون کرتے ہوں گے.
. بس ایسے ہی ایک آس ہوتی تھی کہ جب سرگودھا جاوں گی تو پہلے کی طرح وہ، لمبی لمبی کالیں کروں گی

لیلن کس کو کروں گی..؟؟؟

Advertisements
julia rana solicitors

اماں تو چلی گئیں
نورین بہن بھی چلی گیی
اظہر بھائی بھی چلا گیا
وقاص بھی چلا گیا
الحمداللہ…. میرے بچے تو میرے پاس ہیں نا
اللہ پاک انہیں سلامت رکھے.. میرے باقی سارے پیاروں کو سلامت رکھے..
اللہ حافظ میرے 30 سالہ ساتھی
اللہ حافظ

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply