کتابی جمہوریت اور عملی جمہوریت

ایک وہ زمانہ تھا جب سیاست میں اتنی دلچسپی تھی کہ اپنانے کو دل کرتا تھا۔ انٹرمیڈیٹ میں “سوکس” اور تاریخ پاکستان پڑھی، گریجویشن میں سیاسیات، تاریخ پاکستان اور جرنلزم پڑھی اور جب باری آئی ماسٹرز کی تو سوچا کیوں نہ سیاسیات میں ہی ہوجاۓ۔ ماسٹرز کر لیا، پھر قانون کے طالب علم بھی ہوگئے اور ابھی بطور طالب علم راہ عمل میں ہوں۔ ان تمام مدارج اور کلاسز میں راقم نے بخوبی جمہوریت اور اسکے ثمرات و خوبصورتی اتم طریقے سے پڑھی اور یاد رکھی۔ خیال تھا کہ جب عملی زندگی میں آئیں گے تو ہم چوڑی چھاتی کرکے ایک اصول پسند راہنما کے طور پر سامنے آئیں گے اور علاقے میں ایک پہچان ہوگی۔

عمران خان کی شخصیت ہو اور پاکستان کا نوجوان متاثر نہ ہو، یہ بات ہی غلط ہے۔ عمران کا اقتدار کی بجاۓ اقدار کا نعرہ اور نئے چہروں کی آمد ایسے لگتا تھا کہ بس اگلے ممبر قومی اسمبلی ہم ہی ہیں۔ لیکن کیا پتہ تھاکہ جتنے ہم معصوم ہیں سیاست اس سے کئی گنا زیادہ تیز اور ہوشیار ہے۔ اسکا اندازہ اس وقت ہوا جب قریشی نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی۔ اور پھر عمران کی طرف سے الیکٹ ایبلز کی فرمائش نے کتابی جمہوریت پر پانی پھیر دیا۔ پڑھا تھا کہ جمہوریت سے مراد جمہور کی حکمرانی ہوتا ہے اور جمہور سے مراد اس ملک کی عوام ہیں۔ لیکن جب عملی طور پر پالا پڑا، الیکشن آۓ اور دیکھا کہ جمہوریت سے مراد ڈیرے داروں کی حکمرانی ہے۔ امیدوار آئیں اور جاگیردار سے ملیں اور چلیں جائیں۔ عام آدمی سے کوئی تعلق ، کوئی واسطہ نہیں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بہت سوچا کہ یہ نظام کیسے تبدیل ہوگا؟ یہ روایتی طرز سیاست کب دفن ہوگی؟
جواب آیاکہ جب اچھی تعلیم اور اچھی صحت میسر ہوگی۔
وہ کون دیں گے؟
ہمارے عوامی نمائندے۔
ہمارے ہاں جمہوریت کے نام پر فسطائیت ہے۔ ہمارے ہاں وڈیرا اور سرمایہ دار مضبوط ہے، وہ قانون سے بالاتر ہیں اور سیاہ سفید کے مالک ہیں۔ ان حالات میں کتابی جمہوریت کا تصور بھی دیوانے کا خواب ہے۔ پاکستان میں سیاست دو طرح کے طبقات کرسکتے ہیں۔ ایک جن کےپاس بیش بہا دولت ہے اور دوسرے وہ جن کے ضمیر مردہ ہیں۔

Facebook Comments

محمود شفیع بھٹی
ایک معمولی دکاندار کا بیٹا ہوں۔ زندگی کے صرف دو مقاصد ہیں فوجداری کا اچھا وکیل بننا اور بطور کالم نگار لفظوں پر گرفت مضبوط کرنا۔غریب ہوں، حقیر ہوں، مزدور ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply