اُلجھے ذرّے ۔ زندگی (3) ۔۔وہارا امباکر

کوانٹم انٹینگلمنٹ کوانٹم مکینکس کی ایک اور عجیب خاصیت ہے جس میں الجھے ذرات اپنا آپس میں ربط برقرار رکھتے ہیں، خواہ ان میں آپس میں جتنا بھی فاصلہ ہو۔ اور اس کا فاصلے پر ہونے والا یہ عمل “کوانٹم صوفیوں” کی توجہ کا باعث بنتا ہے۔ لیکن نہیں، ان کے ٹیلی پیتھی اور دیگر پیرانارمل کمالات کے دعوووں کا اس مظہر سے تعلق نہیں۔ کوانٹم انٹینگلمنٹ کا تجرباتی ثبوت 1982 میں فرانس کے فزسٹ کی ٹیم نے فوٹون کی پولرائزیشن کی مدد سے کیا۔ الجھے ہوئے دو فوٹون بیک وقت دونوں سمت میں اشارہ کر رہے تھے، یہاں تک کہ ان میں سے کسی ایک کی پیمائش نہ کر لی جائے۔

پیمائش کوانٹم دنیا کا ایک اور اسرار ہے جس پر سب سے زیادہ بحث ہوتی رہی ہے۔ یہ اس سوال سے تعلق رکھتا ہے جو شاید آپ کے ذہن میں آیا ہو۔ کوانٹم دنیا کی خاصیت ہم روزمرہ کی دنیا میں کیوں نہیں دیکھتے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ پیمائش ہو جانے کے بعد کوانٹم ذرات اپنی کوانٹم خاصیتیں کھو دیتے ہیں اور کلاسیکل آبجیکٹ کی طرح ہو جاتے ہیں۔ لیکن اس سے ایک اور سوال جنم لیتا ہے؟ پیمائش میں ایسا کیا خاص ہے جس کی وجہ سے حالت بدل جاتی ہے؟ اور یہ سوال ہماری کہانی کے لئے بہت اہم ہے۔ کیونکہ کلاسیکل اور کوانٹم دنیا کی سرحد پر پیمائش ہی تو ہے۔

اس پرسرار عمل کی باریکیاں سمجھنا وقت لیتا ہے لیکن ابھی کے لئے اس کی آسان ترین انٹرپریٹیشن جس کے مطابق جب کوانٹم خاصیت (جیسا کہ پولرائزیشن کی حالت) کی پیمائش کی جائے تو یہ اپنی کوانٹم خاصیتیں بھول جاتا ہے (جیسا کہ کئی سمتوں میں بیک وقت اشارہ کرنا) اور روایتی کلاسیکل حالت لے لیتا ہے (ایک سمت میں ہی اشارہ کرنا)۔ اگر اس تعریف کو لیں تو ایسپیکٹ کے تجربے میں ایک فوٹون کی پیمائش نے اس کے ساتھی کی حالت بھی طے کر دی۔ باوجود اس کے، کہ وہ کتنا ہی دور ہو۔ ایسپیکٹ اور ان کی ٹیم نے یہ تجربہ فوٹون کے جوڑے کے ساتھ چند میٹر کے فاصلے پر کیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شلٹن تحقیق کر رہے تھے کہ آزاد ریڈیکلز میں الیکٹران کس طرح ٹرانسفر ہو سکتے ہیں۔ وہ مالیکیول جن کے باہری شیل میں ایک تنہا الیکٹران ہو، وہاں ایک اس کی وجہ سے ایک خاصیت پیدا ہوتی ہے۔ باقی الیکٹرون ایک دوسرے کے ساتھ سپن کو کینسل کر دیتے ہیں اس لئے کل سپن صفر ہو جاتی ہے لیکن یہ تنہا الیکٹرون؟ اپنے جوڑے کے بغیر آزاد ریڈیکلز میں یہ تنہا الیکٹران نیٹ سپن رکھتے ہیں جس کی وجہ سے اس کو مقناطیسی خاصیت ملتی ہے اور اس سپن کو مقناطیسی فیلڈ سے ہم آہنگ کیا جا سکتا ہے۔

شلٹن نے تجویز کیا کہ فاسٹ ٹرپلٹ ری ایکشن کے عمل سے پیدا ہونے والے آزاد ریڈیکل کے جوڑوں میں ان کے یہ تنہا الیکٹران آپس میں کوانٹم انٹینگلمنٹ کی حالت میں ہوتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شلٹن نے جب تجویز کیا کہ چڑیا کے قطب نما کی وجہ انٹینگلمنٹ ہو سکتی ہے تو یہ خیال متنازعہ تھا۔ دوسرا یہ کہ شلٹن کو خود بھی کچھ اندازہ نہیں تھا کہ آخر کیسے ایک ری ایکشن چڑیا کو زمین کا مقناطیسی فیلڈ دیکھنے کی صلاحیت دیتا ہے۔ “دیکھنا” اس لئے کہ اگرچہ یہ چڑیا رات کو سفر کرتی ہے لیکن اسے اس صلاحیت کے لئے مدہم سے روشنی درکار ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ اس کا تعلق آنکھ سے ہے لیکن آنکھ میں مقناطیسی حس کیسے؟ اور یہ ایک معمہ تھا۔

یہ خیال کہ پرندے کے قطب نما کے پیچھے کوئی کوانٹم مکینزم ہو سکتا ہے، بیس سال تک پس منظر میں رہا۔ پھر شلٹن امریکہ آ گئے اور یونیورسٹی آف الی نوائے میں بہت ہی کامیاب تھیوریٹیکل کیمیکل فزکس کا گروپ تشکیل دیا۔ وہ اپنی تھیوری نہیں بھولے تھے اور ان بائیومالیکیول کی تلاش میں تھے جو ایسا کر سکیں۔ وہ ریڈیکل کا جوڑا پیدا کر سکیں جو فاسٹ ٹرپلٹ ایکشن کے لئے ضروری ہے۔ انہیں ایسا کچھ نہیں مل رہا تھا۔ 1998 میں شلٹن نے روشنی کے ایک ریسپٹر کا پڑھا جس کا نام کرپٹوکروم تھا۔ یہ جانوروں کی آنکھوں میں پایا گیا تھا۔ اس سے ان کے ذہن میں گھنٹی بجنا شروع ہو گئی کیونکہ یہ ایک ایسی پروٹین تھی جو ایسا جوڑا بنا سکتی تھی۔

ان کے پی ایچ ڈی کے طالبعلم تھورسٹن رٹز ان کے گروپ میں شامل ہوئے تھے۔ جب کروپٹوکروم کی کہانی ان تک پہنچی تو اس موقع پر کام شروع کیا۔ 2000 میں انہوں نے پیپر لکھا، “پرندوں میںفوٹوریسپٹر کی بنیاد پر مقناطیسی فیلڈ معلوم کرنے کی صلاحیت”۔ اس میں بیان کیا کہ کرپٹو کروم کیسے کوانٹم قطب نما ثابت ہو سکتا ہے۔ اس سے چار سال بعد ولشکو کے ساتھ ملکر انہوں نے یورپی چڑیا پر تجربہ کر کے پہلا تجرباتی ثبوت حاصل کر لیا جو ان کی تھیوری کے حق میں تھا کہ یہ چڑیا دنیا کا چکر کوانٹم انٹینگلمنٹ کی خاصیت کی وجہ سے لگا سکتی ہے۔ نیچر میں 2004 میں شائع ہونے والے اس پیپر میں بہت زیادہ دلچسپی رہی اور یہ آئندہ آنے والی سائنس کو کھولنے کا دروازہ تھا۔

لیکن اس سے پہلے سوال۔ آخر اس دریافت کی اصل اہمیت کیا تھی؟ اس میں خاص کیا ہے؟

(جاری ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نوٹ نمبر ایک: یہاں پر کوانٹم انٹینگلمنٹ کے بارے میں وضاحت۔ فزسٹ اس کو بیان کرنے کے لئے اتنی سادہ زبان استعمال نہیں کرتے۔ اور اردو میں بتانے کے لئے شاید بہتر الفاظ یہ ہوں کہ دور رہنے والے دو الجھے ہوئے پارٹیکل نان لوکل طریقے سے ملے ہوئے ہیں کیونکہ وہ ایک ہی کوانٹم حالت کا حصہ ہیں۔ (لیکن اس کو اگر ایسا بتایا جائے تو شاید کئی لوگ فقرہ ختم ہونے سے پہلے ہی مضمون پڑھنا بند کر چکے ہوں گے 🙁 )۔

نوٹ نمبر دو: پیمائش کے لئے بھی ضرورت سے زیادہ سادہ تعریف استعمال کی گئی ہے۔ مثلاً کوانٹم ذرے کی پوزیشن کی خاصیت کی پیمائش کا مطلب یہ ہے کہ اب غیریقینیت ختم ہو چکی ہے۔ اس کا یہ مطلب قطعی نہیں کہ یہ کلاسیکل ذرہ بن چکا ہے۔ ہائیزن برگ کے اصول کے تحت اب اس کی ولاسٹی فکسڈ نہیں۔ ایک خاص پوزیشن پر ایک پارٹیکل، عین اسی وقت تمام ممکنہ ولاسٹی کی سپرپوزیشن میں ہو گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ نمبر تین: کوانٹم سپن کا مطلب گھومنا نہیں ہے۔ یہ وہ خاصیت ہے جو صرف کوانٹم دنیا میں پائی جاتی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply