ایک کتاب پڑهنے لائق۔۔خاقان ساجد

کرونا کے سبب ابهی ہم گهروں میں مقید نہیں ہوئے تهے، کہ  کرنل ضیاء شہزاد نے فقیرخانہ کو رونق بخشی۔ وه عساکر پاکستان سے تعلق رکهنے والی اس” مزاح نگار رجمنٹ” کے نئے کمانڈر ہیں جو ٹارگٹ پر حملہ  آور نہیں ہوتی، جملہ  آور ہوتی ہے۔ حملہ  آوری اور جملہ  آوری کے اثرات میں وہی فرق ہے جو توپ خانے کی پهیلائی ہوئی تباہی اور رمی جمرات سے حاصل ہونے والے لطف میں ہے۔
موصوف سے اچهی گپ شپ رہی۔ میں نے ان کی شگفتہ  مگر شائستہ گفتگو کو انجوائے کیا، انہوں نے میری سنجیده گفتگو کو زیاده سنجیده نہیں لیا۔ بس پکوڑے کهاتے اور دیدبان کی مانند زیرلب مسکراتے رہے۔دیدو شنید یہی ہے کہ  توپ خانے کے افسر اسی طرح اگلاٹارگٹ “رجسٹر” کرتے ہیں۔الله خیر کرے،اگلی کتاب میں ہم پر ہی کوئی مضمون نہ لکھ ماریں۔ویسے وه سینئرز کا “احترام” بالکل نہیں کرتے۔۔ یہ ہمیں ان کی مزاحیہ  تصنیف ” ٹارگٹ،ٹارگٹ، ٹارگٹ” پڑھ کر معلوم ہوا جو ” ایام اسیری ” میں ہمارے تکیے کے نیچے دهری ہے۔ پُرلطف کتاب ہے ۔ مایوسی کے ان ایام میں ایسی زعفراں کار کتاب کا میسر آنا بڑی نعمت ہے۔ میں زیاده اقتباسات نقل نہیں کروں گا، صرف ایک مختصر مضمون پوسٹ کےآخر پر آپ کے ذوق مزاح کی نذر کیا ہے۔ اگر پڑھ کر آپ مسکرا دیے تو آپ ہرگز کرونا سے متاثر نہیں بلکہ “متاثرین ضیاء شہزاد” میں شامل ہوچکے ہیں۔اب کتاب مذکوره منگواکر پڑهنے ہی سے افاقہ ہوگا۔۔

کتاب منگوانے کے لیے واٹس ایپ نمبر 0345-5605604 پر رابطہ کر کے آن لائن یہ کتاب منگوائی جا سکتی ہے۔۔۔
252 صفحات کی اس کتاب نے آپ کو فی صفحہ  ایک مسکراہٹ بهی عطاکردی تو آپ کو افسوس نہیں ہوگا کہ  ان 500 روپوں کا زنگر برگر ہی کهالیتے ناحق کتاب خریدی۔۔۔
پبلشرز کا پتا یہ ہے:

علم و عرفان پبلشر، الحمدمارکیٹ، 40 اردو بازار لاہور۔ فون نمبر 37223584 اور 07232336

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پیپسی چولہے تے رکھو

سیاچن سے وابستہ کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں جن کا عام زندگی میں صرف تصور ہی کیا جا سکتا ہے۔ بیس کیمپ سے لے کر اگلی پوسٹوں تک پہنچنے کے لیے ایک لمبا سفر طے کرنا پڑتا ہے جو بسا اوقات ہفتوں پر محیط ہو جاتا ہے۔ ایس او پی کے مطابق ماحول سے مانوس ہونے کے لیے ہر ایک ہزار فٹ کی بلندی طے کرنے کے بعد وہاں ایک رات گزارنا ضروری ہوتا ہے-
دورانِ سفر مختلف درمیانی پوسٹوں پر رات بسر کی جاتی ہے۔ ایک مرتبہ ہمیں ایک ایسا ہی سفر درپیش تھا۔ ایک درمیانی پوسٹ سے دوسری تک کا سفر موسم کی خرابی کے باعث معمول سے کچھ زیادہ طویل ہو گیا تھا۔ برف میں پانچ گھنٹے مسلسل پیدل چل کر جب ہم اگلی پوسٹ کے نزدیک پہنچے تو دور سے اگلو کو دیکھ کر جان میں جان آئی۔
پورا بدن تھکن سے چور چور تھا اور گھنٹوں برف میں چلنے کے باعث پاؤں تقریباً شل ہو چکے تھے۔ پوسٹ میں داخل ہوتے ہی پوسٹ حوالدار نے ہمارا استقبال کیا اور ایک زوردار آواز لگائی :
“پیپسی چولہے تے رکھو۔”
ہمارے اوسان جیسے ہی بحال ہوئے تو دیکھا کہ ٹین کے مگ میں سچ مچ کی پیپسی دعوتِ نظارہ دے رہی ہے۔ دل کی دھڑکن مارے خوشی کے بےقابو ہونے لگی۔ ہم نے گھونٹ گھونٹ کر کے اس مشروب کو حلق میں انڈیلا۔ سچ پوچھیے تو کولڈ ڈرنک پینے کا جو مزہ اس روز آیا وہ اب تک بھلائے نہیں بھولتا۔
پوسٹ حوالدار نے بتایا کہ اس نے ہمارے لیے بطورِ خاص یہ اہتمام کیا ہے۔ پیپسی سیاچن کے انتہائی کم درجہ حرارت کے باعث جم کر پتھر کی مانند ٹھوس شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اسے قابلِ استعمال بنانے کے لیے چولہے پر ابلتے ہوئے پانی میں رکھ کر کافی دیر تک گرم کرنا پڑتا ہے۔
دیکھا دیکھی ہم نے بھی اپنی پوسٹ پر پہنچ کر پیپسی کی ڈیڑھ لٹر والی بوتل منگوانے کا آرڈر دیا۔ ہماری پوسٹ انیس ہزار فٹ بلند تھی۔ سامان نے بیس کیمپ سے ہماری پوسٹ تک پہنچنا تھا جس میں کم از کم پندرہ روز کا وقت درکار تھا۔ وہ پندرہ دن ہم نے انتہائی اشتیاق کے عالم میں بسر کیے۔
آخر خدا خدا کر کے وہ دن آن پہنچا جب پارٹی سامان لیکر ہماری پوسٹ پر پہنچی۔ حسب ترکیب پیپسی کو فوراً ابلتے ہوئے پانی میں رکھ کر قابلِ استعمال بنایا گیا۔ جب بوتل ہمارے روبرو پیش کی گئی تو اسے تین چوتھائی خالی پایا جب کہ ڈھکنا اپنی جگہ مضبوطی سے بند تھا۔
سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ مقدار کی اس کمی کے پیچھے کیا راز چھپا ہے۔ خیر بڑی ردوکد کے بعد جو کچھ موجود تھا اسی پر اکتفا کیا گیا۔
دو ماہ گزر گئے، پوسٹ پر ہمارا ٹائم پورا ہوا اور واپسی پر اسی پہلے والی پوسٹ پر رات بسر کرنے کے لیے ٹھہرنا پڑا۔ پوسٹ کمانڈر نے حسب ِسابق اس مرتبہ بھی پیپسی سے خاطر تواضع کی۔ ہم نے اس سے اپنی بوتل کے خالی ہونے کا راز دریافت کیا تو اس نے انکشاف کیا “سر، بیس کیمپ سے لے کر آپ کی پوسٹ کے درمیان جو پانچ درمیانی پوسٹیں واقع ہیں یہ ان ناہنجاروں کی کارستانی ہے۔ وہ لوگ سرنج کے ذریعے پلاسٹک کی بوتل میں سوراخ کرتے ہیں اور پیپسی باہر کشید کر لیتے ہیں۔ سوراخ اتنا باریک ہوتا ہے کہ کھلی آنکھ سے نظر تک نہیں آتا۔”
اس انوکھے طریقۂ واردات پر ہم سوائے مسکرانے اور کر بھی کیا سکتے تھے۔ بقولِ شاعر:-

ہم تو زخموں پہ بھی یہ سوچ کے خوش ہوتے ہیں
تحفۂ دوست ہیں جب یہ تو کرم ہی ہوں گے

Advertisements
julia rana solicitors

اس کے بعد ہم نے پوسٹ پر پیپسی منگوانے کی غلطی تو نہیں دہرائی البتہ چھٹی پر گھر پہنچے اور بیگم ہماری خاطر تواضع کرنے لگیں تو منہ سے بے اختیار نکل گیا “پیپسی چولھے تے رکھو۔”

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply