ایک واقعہ، کئی سوال۔۔محمد اسد شاہ

یہ کوئی اٹھارہ سال پہلے کی بات ہے جب میں پنجاب یونیورسٹی لاہور میں طالب علم تھا۔ ہمارے پڑوس میں ایک نیا خاندان رہائش پذیر ہوا۔ وہ لوگ کسی دیہی علاقے سے آئے تھے جہاں ان کا شاید کوئی چھوٹا موٹا زمین دارہ تھا۔ان کا ایک لڑکا عمرمیں مجھ سے دو چار سال بڑا تھا، جس کا نام مجھے معلوم نہیں تھا ۔ تب ٹی وی کے علاوہ ٹیپ ریکارڈز، کیسٹس، ڈیک سپیکرز اور وی سی آر وغیرہ کا بہت رواج تھا۔ وہ لڑکا ایک عجیب شوق میں مبتلا تھا۔ دوپہر کو جب سکولز کو چھٹی ہوتی تو ہماری گلی کی بچیاں سکولوں سے واپس آتے ہوئے اس کے گھر کے سامنے سے گزرتیں۔ اس لڑکے نے یہ معمول بنا لیا کہ اس وقت سے ذرا پہلے اپنے گھر کی بیٹھک (اس چیز کو اب ڈرائنگ روم کہا جاتا ہے) میں ایک بڑے سے ٹیپ ریکارڈر، اور بڑے بڑے ڈیک سپیکرزکی ایک جوڑی پر نورجہاں کے پرانے گانے بہت بلند آواز میں چلا دیتا۔ اس بیٹھک کی ایک بڑی سی کھڑکی اور دروازہ گلی میں ہی کھلتے تھے، وہ انھیں بھی چوپٹ کھول دیتا۔ جس سے موسیقی کا نہایت بے ہنگم قسم کا شور گلی کے تقریباٌہر گھر میں پوری شدت سے پہنچنے لگتا۔ اس دوران وہ نوجوان خود ایک سگریٹ سلگا کر اپنے گھر کے کھلے دروازے سے باہر کھڑا ہو جاتا۔سب کو بہت برا بھی لگتا، لیکن یہ بھی معلوم ہو جاتا کہ گلی سے طالبات کے گزرنے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ گلی کے رہنے والے تقریباٌ سب لوگوں کو اس کی یہ حرکت بہت تکلیف پہنچاتی تھی۔ چنانچہ کئی لوگوں نے اس نوجوان کے والد سے درخواست کی کہ اپنے صاحب زادے کو روکیں۔ گلی کی ایک نکڑ پر مسجد کا دروازہ تھا اور تقریباٌ وہی وقت نماز ظہر کا بھی ہوتا تھا۔ نماز کو جانے والے لوگ بھی گزرتے ہوئے اس نوجوان سے درخواست کرتے کہ بھائی یہ کام چھوڑ دو۔ لیکن وہ ہر ایک کو نہایت متکبرانہ انداز میں دھتکار دیتا۔ ایک بار میں نے بھی اسے سمجھانے کی کوشش کی۔لیکن اس نے مجھے بھی بہت عجیب جواب دیا: ”یہ میرا اپنا گھر ہے، میں جو مرضی کروں“۔(جیسے آج کل کا ایک نعرہ ہے، ”میرا جسم، میری مرضی“)۔ مجھے اس کے اس نامعقول جواب پر غصہ بھی آیا اور شرمندگی بھی بہت محسوس ہوئی۔ میرے ایک دوست کا بڑا بھائی وکیل تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ شور شرابے کے ذریعے لوگوں کو پریشان کرنا جرم ہے اور اس کے خلاف تھانے میں درخواست بھی دی جا سکتی ہے۔ میرا ایک میٹرک کا ہم جماعت تعلیم چھوڑ کر پولیس میں کانسٹیبل بھرتی ہو چکا تھا۔ میں نے اس سے بات کی تو اس نے مجھ سے کہا: ”تحریری درخواست کے بہت مسائل ہوتے ہیں۔آپ ایسا کیجیے گا کہ کل جب وہ لڑکا یہ کام کرے، اس دوران میرے تھانے کے نمبر پر فون کر کے بتائیے گا“۔اگلے دن اس دیہاتی نوجوان نے جیسے ہی وہ کام شروع کیا، میں نے پی ٹی سی ایل فون سے تھانے والوں کو اطلاع کر دی۔ دس یا پندرہ منٹ بعدجب میں مسجد کی طرف جا رہا تھا تب میں نے پولیس کی ایک موبائل گاڑی کو اس نوجوان کے گھر کے سامنے رکتے دیکھا۔ تب وہ گلی میں کھڑا بہت مزے سے سگریٹ پی کر اپنے منہ سے دھوئیں کے ملغوبے نکال کر اڑا رہا تھا۔پولیس اہل کاروں نے آناٌ فاناٌ اسے تقریباٌ دھکا دیتے ہوئے گاڑی میں پھینکا۔ پھر اس کی بیٹھک سے موسیقی کا سارا سازو سامان بھی اٹھا کر گاڑی میں پھینکا۔ اس دوران اس کا باپ بھی گھر سے باہر نکل کر شور مچانے لگا، لیکن گلی میں موجود کسی بھی شخص نے اس کی پکار کا کوئی جواب نہ دیا اور پولیس کی گاڑی اس نوجوان اور اس کے سامان سمیت چلی گئی۔ شام کو وہی نوجوان اپنے باپ کے ہم راہ بہت تمیز دار بچہ بن کر پیدل چلتا ہوا اپنے گھر واپس آ گیا، لیکن اس کا وہ قیمتی سامان کبھی واپس نہ آ سکا، نہ ہی گلی کے لوگ پھر کبھی اس کی موسیقی سن سکے اور نہ ہی کبھی اس کی بیٹھک کا دروازہ کھلا نظر آیا۔ گلی کے لوگ ان کے متکبرانہ رویئے کی وجہ سے انھیں ویسے بھی پسند نہیں کرتے تھے۔کچھ عرصے بعد وہ لوگ شاید مکان بیچ کر کہیں چلے گئے۔
اس واقعے کے بعد میرے دل میں پولیس کے لیے بہت عزت پیدا ہو گئی۔لیکن اب جب میں سوچتا ہوں تو پریشانی ہوتی ہے۔ پولیس والے نے کیوں کہا کہ درخواست نہ دی جائے کہ اس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں؟ کس کے لیے مسائل پیدا ہوتے؟ کیا مجرم کے لیے؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پولیس تحریری درخواست وصول کر کے اہل محلہ سے حقائق معلوم کرتی، ا گر درخواست مبنی بر حقیقت ہوتی تو ملزم کو باقاعدہ گرفتار کرتی، اس گرفتاری کا اندراج کرتی اور تفتیش مکمل کر کے اسے عدالت میں پیش کرتی۔ عدالت قانون کے مطابق اسے کوئی سزا سناتی، خواہ چند دن کی قید یا جرمانہ۔اس طرح باقی لوگوں کے لیے ایک سبق ہوتا کہ قانون شکنی سے پرہیز کرنا لازمی ہے۔لیکن جو کچھ اس واقعے میں پولیس نے کیا وہ تو الٹا مجرم کو تحفظ فراہم کرنے والی بات ہے۔ اب اس معاملے کا دوسرا پہلو دیکھیے۔ کیا مسائل درخواست دہندہ کے لیے پیدا ہوتے؟ کیوں؟ ایسا کیوں ہے کہ معاشرے کے کسی بھی ناپسندیدہ عنصر کے خلاف درخواست دینے سے ہر شخص پرہیز کرتا ہے؟ یعنی مجرم خواہ کسی بھی سطح کا ہو، وہ پولیس یا عدالت سے بچ نکلنے کے لیے پریقین، اور پھر درخواست دہندہ سے انتقام لینے کے لیے تیار ہوتا ہے؟ بعض اوقات جوابی اور انتقامی طور پر، درخواست دہندہ کے خلاف جھوٹی درخواستیں بھی دی جاتی ہیں، اور ایسا کرنے والوں کو یہ یقین کیوں ہوتا ہے کہ ان کی درخواستیں جھوٹی ثابت ہونے کے بعد خود انھیں کسی عدالتی کارروائی یا سزا کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا؟ اب اس معاملے کے تیسرے پہلو کو دیکھیے۔ کیا درخواست دینے سے خود پولیس کے لیے مسائل پیدا ہوتے؟ کیوں؟ کیا پولیس اس قدر کم زور ہے کہ ہر ایرے غیرے سے ڈرتی پھرے؟ کیا ایک عام سا لفنگا نوجوان جو راہ چلتی بچیوں کو پریشان کرنے کے لیے بآواز بلند گانے بجانے اور سگریٹ پھونکنے سے حظ اٹھاتا ہو، اس کو بھی کسی عدالت میں پیش کرنے سے پولیس کے لیے خطرات یا مسائل ہو سکتے ہیں؟ کیسے مسائل؟ تحریری درخواست نہ دینے سے مجرم بھی کسی عدالتی کارروائی سے بچ گیا اور صرف موسیقی کے محروم ہوا۔ دوسری طرف اسے یہ بھی پتہ نہ چل سکا کہ اس کے خلاف پولیس کو اطلاع کس نے دی تھی۔ چناں چہ اطلاع کنندہ بھی اس کے کسی ممکنہ انتقامی روئیے سے محفوظ رہا۔
اس ایک واقعے میں اور بھی بہت سی باتیں قابل غور ہیں لیکن یہ کالم محدود ہے۔ ایک مختصر بات البتہ قارئین سے ضرور پوچھنا چاہوں گا کہ اس نوجوان کا موسیقی کا سامان کہاں غائب ہو گیا اور کس قانون کے تحت؟

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply