مولوی ایک شخصیت،دو پہلو

مولوی ہمارے معاشرے کا سب سے اہم انسان جس کا ہماری زندگی میں کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے۔یوں سمجھ لیں کہ ہمارے معاشرے کی تربیت کا کامل انحصار مولوی صاحب کے عملی کردار کا مرہون منت ہے۔مولوی کی شخصیت کو اگر تصویر سے تشبیہ دی جائے تو دو رخ سامنے آتے ہیں ۔

پہلا رخ!
مولوی صاحب ایک نہایت قناعت پسند شخص ہے۔جو اپنی محدود آمدن کے باوجود ہشاش بشاش اور خشوع و خضوع کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں نہایت باقاعدگی کے ساتھ ادا کرتا ہے۔دسمبر کی یخ بستہ سردی میں گرم کپڑوں سے بے نیاز فجر کے وقت خالق کائنات کے حکم کی بجا آوری کے لیے مسجد میں مقررہ وقت پر موجود ہوتا ہے ۔نماز کی امامت کا فریضہ سر انجام دیتا ہے ۔موسم سرد ہو یا انتہائی گرم آندھی ہو یا طوفان بارش ہو یا برف باری مولوی ان تمام حالات سے بے نیاز پانچ وقت مسجد میں موجود ہوتا ہے ۔وقت کی پابندی کے ساتھ فرائض کی ادائیگی کرتاہے۔شادی خانہ آبادی کے لیے نکاح کی تقریب میں حاضر ہو کر تقریب کو پایہ تکمیل تک پہنچانا بھی مولوی کی ذمہ داری ہے۔جنازے کی ادائیگی بھی مولوی صاحب کا فرض ہے۔مولوی نے ہی ہمارے بچوں کی ابتدائی دینی تعلیم کا فریضہ سر انجام دیناہے۔بدلے میں اس کو ملتا کیا ہے ،محدود سی تنخواہ جس میں مولوی نے اپنی اور پورے خاندان کی کفالت کرنی ے ۔مولوی ایک انسان ہے اس کی بھی خواہشات ہیں ،اس کابھی دل کرتا ہے اپنے بچوں کی تمام خوشیوں کو ،خواہشات کو پورا کرے، ان کی فرمائشیں پوری کرے مگر اس کی محدود آمدن ان خواہشات کے آگے سپیڈ بریکر بن کر کھڑی ہو جاتی ہے اور بے چارگی کےعالم میں اپنے معصوم بچوں کو صبر و قناعت کی لوری سنا کر مطمئن کرتاہے۔

اسلام کے پانچ ارکان ہےہیں ،مگر ایک چھٹا رکن بھی ہے۔جو ہم سب کی آنکھوں سے اوجھل ہے ،وہ ہے “بھوک “۔یہ وہ عفریت ہے جس کے کارن انسان تمام ارکان کو بھول کر صرف اس کی جستجو میں ہلکان ہو جاتا ہے۔بھوک ایک ایسی حقیقت ہے کہ انسان اپنی عزیز ترین ہستی کے انتقال کے بعد اپنے ہاتھوں سے اس کو قبر میں اتار کر پہلا اعلان کرتا ہے تمام لوگ کھانا کھا کر جائیں،اور لوگ غم کو بھول کر بھلے عارضی طور پر ہی سہی پیٹ کا ایندھن بھرنے میں مشغول ہو جاتے ہیں ۔مولوی بھی ایک جیتا جاگتا انسان اس کے ساتھ بھی خواہشات کی مجبوریاں جڑی ہیں ۔اس کے بھی جذبات ہیں بھوک پیاس اس کو بھی لگتی ہے مگر ہمارے معاشرے نے مولوی کو روبوٹ سمجھ رکھا ہے ۔جس کے اندر سافٹ وئیر نسب ہے اور وہ اسی کے مطابق زندگی گزارنے کا پابند ہے۔معاشرے کی یہی بے اعتنائی مولوی کو دوسرا رخ دکھانے پر مجبور کرتی ہے۔

دوسرا رخ ۔
مولوی کو جب انسانی تقاضے تنگ کرنے لگتے ہیں ۔جب معصوم بچوں کی خواہشات پوری کرنا اس کے بس سے باہر ہو جاتا ہے ۔بیوی صبر و قناعت کے درس سے مطمئن نہیں ہوتی ۔مفلسی اس کے گھر کے درودیوار سے ٹپکنے لگتی ہے۔تو ایسے میں کب تک خواہشات کے آگے بند باندھنا ممکن رہتا ہے۔یوں خواہشات کے آگے قناعت ہار جاتی ہے۔بدقسمتی سے ہمارے ملک میں مساجد کا انتظام سرکاری سر پرستی سے محروم ہے۔مولوی کی آمدن معمولی تنخواہ یا چندے کی مرہون منت ہے۔ایسے میں مولوی کے پاس اپنے احساس محرومی کو ختم کرنے کے لیے سوائے منفی راستے کے دوسرا آپشن موجود ہی نہیں رہتا ۔پھر مولوی ہروہ کام کرتا ہے جس میں اس کا معاشی مفاد موجود ہوتا ہے ۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پاکستان کے قیام کے بعد حکومت مساجد کے تمام انتظامات خود سنبھالتی مساجد کے تمام عملے کی بہترین تنخواہیں مقرر کرتی ،دینی اور دنیاوی تعلیم سے آراستہ مولوی مناسب تنخواہ پر مقرر کرتی ،مساجد کو کمیونٹی سنٹر کی طرح استعمال کرتی مگر بدقسمتی سے مساجد سے وابستہ مولوی کو معاشی لحاظ سے مجبور ترین طبقہ بنا کر رکھ دیا گیا اور مولوی کی معاشی مجبوریوں نے معاشرے کو فرقہ واریت عدم برداشت اور جاہلیت کی جانب دھکیل دیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

مولوی کو معاشرے کی فکر کی بجائے اپنے معاشی مفادات کی فکر پڑ گئی اور مولوی جس نے معاشرے کی تعمیر کرنی تھی تخریب میں جت گیا اور نتیجے کے طور پر ہم اپنے معاشرےکو دوزخ بنتے دیکھ رہے ہیں ۔فرقہ پرستی کی آگ ہماری زندگیوں کو جلا کر راکھ کر رہی ہے۔ابھی بھی وقت ہے مولوی کو دور جدید کے مطابق دنیاوی اور دینی تعلیم سے آراستہ کر کے اس کو معاشی لحاظ سے بہترین سہولتیں دے کر مساجد کو معاشرے کی فلاح و بہبود کا مرکز بنا دیا جائے۔مساجد کے انتظام و انصرام کو سرکار کی سر پرستی میں لیا جائے۔باقاعدہ بجٹ مقرر کیاجائے ۔تاکہ انتہا پسندی عدم برداشت فرقہ واریت اور دہشت گردی کے عفریت پر قابو پایا جا سکے۔

Facebook Comments

مرزا شہبازحسنین
علم کا متلاشی عام سا لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”مولوی ایک شخصیت،دو پہلو

Leave a Reply