گھر بیٹھے بیٹھے سب سے زیادہ تیزی سے بال اور ناخن بڑھ رہے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ ہم کام کاج کیے بغیر جو اضافی کھانا کھارہے ہیں وہ صرف بالوں اور ناخنوں کو لگ رہا ہے ۔ گھر میں چھری اور چمچے کے بعد سب سے زیادہ آوازیں نیل کٹر اور قینچی کے لیے لگ رہی ہیں ۔ بیگم سے ہر کام کا کہنے والے بھی یہ آرڈر نہیں دے پارہے کہ میرے سر کے بال کاٹ دو۔
جو شیونگ ریزر دس دن تک چل جاتا تھا وہ اب دو دن بعد ہی اپنی تیزی بھولتا جارہا ہے ۔
شیو نہ بناؤ تو بیگم پہچاننے سے انکار کردیتی ہیں ۔ کئ بچے تو فادر کو گرینڈ فادر پکارنا شروع کرچکے ہیں ۔ سر کے بال ہر رخ سے بڑھ رہے ہیں ۔ کان ، پیشانی اور گردن بالوں کے سیلاب میں ڈوبتی چلی جارہی ہے اور مکھڑا دن بہ دن چھوٹا دکھائی دینے لگا ہے ۔ اس معاملے میں صرف گنجے پُربہار ہیں ۔ منہ اور سر کا بارڈر کراس کرکے چہرہ بغیر کسی رکاوٹ کے دھولینا ان کی اب بھی روایتی ہابی ہے۔
ایسے میں باربر کی دکانیں بڑی یاد آرہی ہیں جو بال کی زکوٰة کاٹنے کیلئے آدھی ویکلی تنخواہ ہڑپ کرجاتے تھے ۔ پہلے ان کے ہاں بال برابر جگہ نہ ہوتی تھی اب جگہ ہی جگہ ہے مگر بال اور باربر غائب ۔ ہر وہ کام اب رکا ہوا ہے جس میں سوشل ڈیسٹینس کی حاجت نہیں رہتی۔ بیوی سے لےکر نرس اور کام والیاں بھی فارغ بیٹھی ہیں۔
سارے پیشہ ور سکون میں ہیں ۔ پلمبر سے لےکر الیکٹریشن تک کسی کو آواز نہیں دی جارہی ۔ جدھر دیکھو ڈاکٹر ہی ڈاکٹر کا شور ہے ۔ نرسوں کے چہرے سے سمائیل غائب ہے اور وہ نرس کم سماعیلی عورتیں زیادہ لگنے لگی ہیں ۔
عورتیں پرس سے زیادہ شاپنگ بیگ پکڑے نظر آرہی ہیں ۔سکول پارک غیرآباد اور گھر یتیم خانوں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ ٹک ٹاک بنانے اور دیکھنے والوں کی تعداد میں یکدم اضافہ ہوگیا ہے ۔ اگر پیاز جلی ہوئی اور کھانے میں نمک تیز ہو تو اہل خانہ سمجھ جاتے ہیں کہ آج ممی نے نئی ویڈیو اپلوڈ کی ہوگی ۔
خبروں میں کرونا ، ٹرمپ اور عمران خان کی حماقتوں کے سوا کچھ بھی نیاپن نہیں ہے ۔ ہر طرح کے اڈّے روزانہ بند ہورہے ہیں ۔ جوا اور گینگ ریپ پر خوف کا سیلف سنسر ہے ۔ صبح اٹھ کر یہ نہیں پوچھا جاتا ہے کہ ناشتہ بنا کہ نہیں بلکہ یہ دریافت کیا جاتا ہے کہ کرونا ویکسین بن گئی؟
بہت سارے جوہر جوشاندہ پی کر یہ سوچ رہے ہیں کہ کرونا ان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا پھر بھی دہی خریدتے وقت دستانے پہن کر جاتے ہیں ۔ رشوت لینے والے بھی دستانے پہن کر رشوت وصول کررہے ہیں ۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے بچوں پر ڈبل مصیبت آئی ہوئی ہے ۔ گھر میں رہو تو ابا کی گالیاں پڑرہی ہیں اور باہر نکلو تو پولیس کے ڈنڈے ۔ سگریٹ اور شراب پینے والوں پر عجب وقت آن پڑا ہے ۔ دھواں بدبو اور نیت چھپانی مشکل ہوگئی ہے ۔ غرض یہ کہ بال اور ناخن کے علاوہ ہر شئے پر مندی طاری ہے ۔ نیند بھی ایسے غائب ہے جیسے مارکیٹ سے ہینڈ سنیٹائزر اور دستانے ۔ اب تو اللہ میاں بھی دعا قبول کرنے کے موڈ میں نظر نہیں آرہے ہیں۔
Facebook Comments
کرونا ایک عالمی انسانی المیہ ہے قدرتی ہے یا لیب میں تیار ہوا اس سےالمیہ کی شدت کم نہیں ہوتی کیا یہ ہوسکتا ہے کہ ہم مدد کے لیے تڑپتے شخص کا مذہب مسلک فرقہ یا قومیت پوچھیں کیا ایسے موقع پر تڑپتے شخص سے یہ سوال کسی مذہب مسلک یا فرقہ میں جائز ہے اگر نہیں تو پھر یہ بحث ہی غلط ہے