• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کرونا ڈائریز:کراچی کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(ساتواں دن)۔۔۔گوتم حیات

کرونا ڈائریز:کراچی کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(ساتواں دن)۔۔۔گوتم حیات

شَبِ گزشتہ میری ڈائری کی چھ اقساط مکمل ہو گئیں۔ پڑھنے والوں نے میری ان تحریروں کو بیحد سراہا ہے۔ جانے کیوں مجھے اس وقت خود پر حیرانگی ہو رہی ہے کہ کیا یہ میں ہی ہوں جس نے وہ چھ اقساط تخلیق کیں یا میری جگہ وہ کوئی اور تھا جو دُور دیس سے آکر مجھے اپنی تحریروں کا پلندہ سونپ گیا اور میں اُس سونپے گئے پلندے سے ہر رات اپنی قرنطینہ ڈائری کے اقتباسات مکمل کر کے پڑھنے والوں کی نذر کر رہا ہوں۔۔۔

آج اتوار کا دن ہے اور اس وقت شام کے پانچ بج رہے ہیں۔ دن بھر سے میں نے کچھ نہیں کھایا، بھوک جیسے مر سی گئی ہے۔ گزشتہ دنوں کی طرح میں نے یہ دن بھی اپنے بستر پر بےزاری اور بےچینی میں گزارا۔ صبح کے وقت ایکسپریس اردو اخبار کی ویب سائیٹ سے میڈم زاہدہ حنا کا کالم پڑھا۔ کالم کو پڑھنے کے بعد میں نے اسے فیس بُک پر پوسٹ کیا اور پھر میں بدمزہ چائے پینے کے لیے بوجھل قدموں سے کچن کی طرف روانہ ہوا۔ کرونا کی وجہ سے لاک ڈاؤن کے ان دنوں میں شہر کے سارے ہوٹل بند کر دیے گئے ہیں۔ اس لیے گھر پر بنی ہوئی بدذائقہ چائے پینا اب میرا مقدر ہے۔ خالی پیٹ چائے پینے کے بعد میں واپس اپنے کمرے میں آکر بیٹھ گیا اور فیس بُک پر کچھ پرانی تصویروں کو دیکھنے لگا۔ یہ تصویریں یونیورسٹی کے زمانے کی تھیں۔ ان تصویروں کی ایک خاص بات یہ تھی کہ انہیں صدف نے اپنے ڈیجیٹل کیمرے سے کھینچا تھا، ساری تصویریں 2007 سے 2012 کے درمیانی سالوں کی تھیں۔ یہ اُس زمانے کی باتیں ہیں جب مشرف کی آمریت کا پنجہ ملک پر اپنی آہنی گرفت مضبوط کرنے کے بعد آہستہ آہستہ زوال کی جانب گامزن تھا۔ اُن دنوں میں شہر کا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ سیکولر ازم کے نام پر شہر کی باگ ڈور ایک ایسے جتھے کے حوالے کر دی گئی تھی جن کے کارندوں نے صبح و شام قتل و غارت گری کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ شہر میں آئے روز بےدردی سے لڑکوں کو قتل کیا جاتا۔ قتل کی ان وارداتوں میں ملوث افراد کو مشرف آمریت کی حکومت کا آزاد میڈیا عوام سے مخفی رکھتا تھا کہ بہتری اسی میں تھی۔ میڈیا نے اپنے آپ کو ان بااثر قاتلوں سے محفوظ رکھنے کے لیے ایک نیا لفظ متعارف کروایا تھا “نامعلوم”۔ تو اُن دنوں شہر میں جو بھی شہری قتل ہوتا، اُس کے قاتل کو نامعلوم ہی پکارا جاتا اور ایف آئی آر بھی نامعلوم کے خلاف ہی کٹتی تھی۔ شہر بھر کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے انویسٹیگیٹوو رپورٹرز بھی صبح شام “نامعلوم” کا ہی راگ الاپتے تھے۔ تو ہم ان نامعلوم قتل کرنے والے قاتلوں کے حصار میں اپنی زندگیاں گزار رہے تھے اس لیے کچھ نڈر بھی ہو گئے تھے۔ میں اس وقت سندھ مسلم گورمنٹ سائنس کالج میں تین بار سالانہ امتحانات میں برے طریقے سے فیل ہونے کے بعد چوتھی بار امتحانات کی تیاریوں میں مگن تھا، صائمہ اور صدف اپنی انجنیئرنگ کی ڈگریوں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد شہر بھر میں بے فکری سے گھوما کرتیں تھیں اور پھر ان دونوں نے مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے کراچی یونیورسٹی میں ایڈمیشن کے لیے اوپن میرٹ پر داخلہ فارمز جمع کروا لیے تھے۔ ان دونوں کی خواہش یہی تھی کہ ایک ہی ڈیپارٹمنٹ میں ایڈمیشن ہو جائے مگر جب داخلوں کا حتمی نتیجہ یونیورسٹی کی دیوار پر چسپاں کیا گیا تو اس کی رو سے صائمہ کا نام ماس کمیونیکیشن میں جبکہ صدف کا نام کیمیکل انجنیئرنگ کے شعبے میں آیا۔ خیر افسردہ دلوں کے ساتھ دونوں نے کراچی یونیورسٹی کے الگ الگ شعبوں میں تعلیم جاری رکھنے کا فیصلہ کیا، یہ بات غالباً 2005، 2006 کی ہے مجھے اس وقت درست سال یاد نہیں آرہا، بس اتنی بات یاد ہے کہ جنرل مشرف نے اپنی اندھی طاقت کے نشے میں چور ہو کر بلوچستان کو فتح کرنے کا منصوبہ بنا لیا تھا اور پھر ہم نے یہ خبر بھی اخبارات کے صفحات میں پڑھی کہ نواب اکبر بگٹی پہاڑوں کے اندر شہید کر دیے گئے ہیں۔ اس زمانے میں بڑے پیمانے پر بلوچستان کے علاقوں سے لوگوں نے اپنی زندگیوں کو محفوظ بنانے کے لیے آبائی زمینوں کو دکھی دلوں کے ساتھ خیرباد کہا تھا۔ بہت سے خاندان اپنی المناک داستانوں کی پوٹلیاں سر پر رکھے شہرِ حب اور کراچی میں بھی آئے تھے۔

خیر اللّہ اللّہ کر کے کئی بار امتحانات میں فیل ہونے کے بعد آخرکار کالج کی تعلیم سے میں بھی فارغ ہوا اور پھر بقائی یونیورسٹی میں بزنس ایڈمنسٹریشن میں داخلہ لے کر یونیورسٹی جانے لگا۔ وہاں جا کر مجھے احساس ہوا کہ میں انتہائی غلط جگہ پر آگیا ہوں، کسی بھی مضمون کو سمجھنے کی استطاعت سے یکسر محروم میں خود کو ہر وقت ملامت کرتا رہتا کہ یہ ڈگری کس طرح مکمل ہو گی اور ہزاروں روپے فیس بھی ایڈوانس میں جمع ہو چکی تھی جس کو ریفنڈ کرنا یونیورسٹی کے قانون میں شامل نہیں تھا۔ پورا سمیسٹر  یوں ہی گزر گیا لیکن میری دلچسپی ایک انچ آگے نہ بڑھ سکی، سمیسٹر کا امتحان سر پر آپہنچا اور جب رزلٹ آیا تو میں سارے مضامین میں فیل تھا۔ اپنی اس ناکامی کا بوجھ لیے کئی دنوں تک میں گھر پر سوگ مناتا رہا اور پھر میں نے بقائی یونیورسٹی کو چھوڑنے کا فیصلہ کر کے کراچی یونیورسٹی میں اوپن میرٹ پر داخلہ فارم جمع کروایا۔ میری یہ خوش قسمتی کہ مجھے کراچی یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ میں داخلہ ملا۔ میں بہت خوش تھا جبکہ میرے امّی، ابّو مجھے ہر روز کوستے کہ فلسفہ پڑھ کر کوئی جاب نہیں ملے گی، اچھے روزگار کے حصول کے لیے ساری زندگی خوار و رسوا ہو گے تم، اچھا بھلا بزنس ایڈمنسٹریشن پڑھتے رہتے تو امتحانات بھی پاس کر ہی لیتے۔ زمانہ کہاں جا رہا ہے اور تم ہو کہ ہر روز وقت ضائع کرنے کے لیے فلسفہ پڑھنے کراچی یونیورسٹی جا رہے ہو۔ میں نے چھ سال ریگولر کراچی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی مگر میرے امی ابو کی باتوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ویسے امّی، ابو بھی کمال کے انسان ہیں، ایک طرف مجھے کوستے تھے اور پھر سیمسٹرز کی فیس اور کتابیں خریدنے کے پیسے بھی مجھے پابندی سے دیتے تھے۔ یہ سلسلہ چھ سال تک جاری رہا۔

میں جب کراچی یونیورسٹی میں داخل ہوا تو صائمہ کا فائینل ائیر چل رہا تھا اور اس کی بہتری دوست صدف کیمیکل انجنیئرنگ کے شعبے سے اُکتا کر سر سید یونیورسٹی میں لیکچرر کی حیثیت سے فرائض سرانجام دینے لگی تھی۔ صدف ہر روز صائمہ سے ملنے کے لیے کراچی یونیورسٹی آیا کرتی تھی۔ میں اور صائمہ دن ایک بجے اپنی کلاسوں سے فارغ ہو کر شام تک یونیورسٹی کی مختلف کینٹینوں میں کھاتے پیتے اور والک کرتے۔ وہ ہماری زندگی کا سہانا زمانہ تھا۔ مجھے، صائمہ اور صدف کو اس بھری یونیورسٹی میں کوئی ایسا بندہ نہیں ملتا تھا جو ہمارا ہم خیال ہو سکے۔ اکثر اوقات ہم لوگ لمبی لمبی بے مقصد بحثوں میں اپنا بہت سا وقت ضائع کر دیتے تھے۔ یہ پرانی باتیں سوچتے ہوئے میں اس لمحے صائمہ اور صدف کو یاد کر رہا ہوں۔ کرونا کی وبا نے دنیا کے کونے کونے میں موت کی گھنٹیاں بجائی ہوئی ہیں۔ اگر صائمہ اور صدف اس وقت کراچی میں ہوتیں تو شہر میں لگائے گئے لاک ڈاؤن کی کیفیات کو مل کر ہم سیلیبریٹ کرتے اور ضرور لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل جاتے۔ ہم تینوں کی بدبختی ہے کہ لاک ڈاؤن کے ان سیاہ تاریک دنوں میں صائمہ اٹلی کے شہر میلان میں، صدف آئرلینڈ کے شہر ڈبلن میں اور میں پاکستان کے شہر کراچی میں ہوں۔ ہم لوگ ایک دوسرے سے دور اپنے اپنے شہروں میں کرونا کی وبا سے خوفزدہ ایک دوسرے کی زندگیوں کی سلامتی کے لیے دعا گو ہیں اور امید کرتے ہیں کہ وبا کی یہ سخت گھڑیاں ضرور اپنے انجام کو پہنچیں گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply