فوجی اقدار/یادِ ماضی عذاب ہے یا ربّ(1)-بریگیڈئیر بشیر آرائیں

میرا فوج میں کمیشن 24 دسمبر 1983 کو ہوا ۔ پہلی پوسٹنگ سی ایم ایچ کھاریاں میں ہوئی  ۔ ان دنوں صوبہ سندھ اور بلوچستان سے فوج میں زیادہ تر ڈاکٹر اور انجینئر ہی آتے تھے ۔ گھر سے دور دراز علاقوں میں پوسٹنگ ہوتی اور فون کرنا بھی انتہائی  مہنگا پڑتا تھا ۔ خط لکھنے کا رواج زیادہ تھا ۔ میں نے بھی مختصر سا فون کرکے نوابشاہ والدین کو وردی پہن لینے کی خوشخبری سنا دی تاکہ بی بی جی کی دعائیں  شاملِ حال رہیں ۔ باقی سب کچھ خط میں لکھ کر بھیجنا تھا ۔

ہم دو کلاس فیلوز سی ایم ایچ کھاریاں پہنچے تھے اور استقبال ایسا ہوا جیسے صرف ہمارا ہی انتظار تھا ۔ آپس کی محبتیں سگے رشتوں جیسی تھیں ۔ ہم بھی فوراً ہی خاکی زندگی کے طور طریقوں میں ڈھل گئے  ۔ لاگ ایریا میس میں کمرہ ملا ۔ ہر سینئر نے خوش آمدید کہا ۔ زندگی انتہائی  سادہ اور خوشیوں بھری تھی ۔ صبح سویرے سڑکوں پر ہر طرف سائیکلیں ہی سائیکلیں نظر آتیں اور عام سولجر سے لیکر کرنل رینک تک کے آفیسرز یونٹوں کی طرف رواں دواں ہوتے ۔ راستے میں مختلف یونٹس کے کوارٹر گارڈز پر چاک وچوبند جوانوں کی پُرجوش سلامیاں لیتے ہم اپنی اپنی منزل تک پہنچتے ۔

شام کو کھیلوں کے میدان میں خوب رش لگتا ۔ ہم اپنی اپنی پسند کے کھیلوں سے فارغ ہوکر آفیسرز میس کے لان میں بیٹھ کر تازہ جوس کا ایک گلاس پیتے تو لگتا دنیا کی تمام نعمتیں سمیٹ لی ہوں ۔ آفسیرز اکٹھے ڈنر کرتے ۔ ٹولیوں میں واک پر نکلتے ۔ ملک و قوم پر مر مٹنا ہی مقصد تھا فوجی زندگی کا ۔

ہماری تربیت کے مراحل مثالی تھے ۔ پاکستان آرمی کے بعد میں سرجن جنرل بننے والے ایک دبنگ آفیسر لیفٹیننٹ جنرل کمال اکبر ان دنوں سی ایم ایچ کھاریاں میں کرنل اور انکی بیگم نادرہ سلطانہ میجر تھیں ۔ کرنل کمال اکبر لاگ ایریا میس کے ساتھ والی آفیسرز کالونی میں رہتے تھے اور روز صبح ہمارے ہی ساتھ اسی راستے سائیکل پر سی ایم ایچ جاتے تھے اور انکی بیگم کار چلاتے ہوئے  ہم سے آگے نکل جاتیں ۔ ہم سمجھتے کہ میاں بیوی کی کوئی  اَن بَن ہوگی کہ اکٹھے نہیں جاتے مگر پوچھنا ناممکن تھا ۔ شروع شروع میں ہم انکو سلیوٹ کرنے کی حد تک ہی بات کرتے مگر پھر ٹی روم میں ساتھ بیٹھ کر کچھ حوصلہ ملا تو ہم نے اپنے سب سینئرز کے ساتھ گفت و شنید شروع کردی ۔

ایک دن کرنل کمال اکبر اسٹاف سرجن ڈیپارٹمنٹ میں میرے آفس آ بیٹھے اور کہنے لگے بھئی   آج ہمیں اپنے آفس میں چائے  ہی پلا دو ۔ میرے لیے تو یہ بہت خوشی کی بات تھی ۔ چائے  آئی  ۔ کچھ سندھ کی ثقافت کے بارے بات ہوئی، باتوں باتوں میں ہمت کرکے میں نے پوچھ ہی لیا کہ سر آپ سائیکل پر کیوں آتے ہیں جبکہ بھابھی اسی وقت کار میں آتی ہیں ۔ کہنے لگے میاں %80 آفیسرز کے پاس کار نہیں ہے ۔ ہم دونوں میاں بیوی کماتے ہیں تو کار خرید لی ہے ۔ میں سائیکل پر اس لیے آتا ہوں کہ کسی جونیئر آفیسر کو اپنی کم مائیگی کا احساس نہ ہو ۔ میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگے خاکی وردی پہنی ہو تو کار یا سائیکل کی وجہ سے ہماری عزت میں کوئی  فرق نہیں پڑتا ۔

ان دنوں فوجی زندگی دراصل ایک مکمل ضابطہ حیات تھی ۔ یونٹ ، میس، کھیل اور ٹریننگ کے میدان ہماری کل کائنات تھی ۔ سب کچھ ہی بناوٹ سے مبرا اور جھوٹ سے پاک تھا ۔ کسی فوجی سے دھوکے کی توقع تو درکنار سوچنا بھی ناممکن تھا ۔ ہم کھاریاں آئی  جے کالونی کی مارکیٹ میں جاکر سادہ پرچی پر اپنا پرسنل آرمی نمبر لکھ کر شاپنگ کر لیتے کہ پیسے پہلی تاریخ کو تنخواہ آنے پر دیں گے ۔ دوکاندار کبھی یونٹ بھی نہ پوچھتا ،انکے لیے بس ہمارا پی اے نمبر جاننا ہی کافی ہوتا تھا ۔ آفس میں کوئی  مہمان آتا تو چائے  یا نمبو پانی پیش ہوتا ۔ ٹی بریک پر پکوڑے ۔ چناچاٹ یا سموسے کسی نعمت سے کم نہ ہوتے ۔ رات کو اچانک کوئی  دوست آ جاتا تو پہلے سے بنے سالن کے ساتھ اضافی انڈا آملیٹ بنوا کر ڈنر پر عیاشیاں ہوتیں ۔ ڈی ایچ اے کے پلاٹوں اور ہاؤسنگ ڈائریکٹوریٹ کی ممبرشپ کے بارے میں ہمیں کچھ پتہ نہ تھا ۔

پھر ضیائی  دور نے قدم جمانا شروع کیے اور فوجی زندگی کی کایا پلٹنی شروع ہوگئی  ۔ سعودی عرب اور دوسرے ملکوں میں فوجی جانے لگے اور اسکے لیے آفیسرز کی سالانہ رپورٹ نے اہمیت اختیار کرلی ۔ میس لائف  ختم ہوتی گئی  ۔ آفیسر اچھی اے سی آر کیلئے پروفیشنل قابلیت سے زیادہ سینئرز اورکمانڈنگ آفیسرز کی ذاتی خوشنودی حاصل کرنے پر توجہ دینے لگے تاکہ اپنا آفیسرز ایفیشینسی انڈیکس بڑھے اور مشرق وسطٰی کے کسی ملک میں جانے کا موقع  ہاتھ آ جائے  ۔

فوج میں ریال در آنے لگے تو آہستہ آہستہ ہم نے بھی چھاؤنی کی زندگی سے باہر جھانکنا شروع کردیا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply