• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • توقیر حسین،زاہد عباس اور وجاہت حسین بنام ریاست پاکستان/سید محمد تعجیل مہدی

توقیر حسین،زاہد عباس اور وجاہت حسین بنام ریاست پاکستان/سید محمد تعجیل مہدی

پاکستان بن گیا تو قائد نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ:-
“آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے، اپنی مسجدوں میں جانے کے لیے، آپ آزاد ہیں اپنی عبادت گاہوں میں جانے کے لیے۔مملکت کو آپ کے مذہب سے کوئی سروکار نہیں۔ “

کسی بھی ریاست کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ترین ذمہ داری یہ ہے کہ ریاست اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کرے۔ایک عام شہری کی جان،مال اور عزت کی حفاظت کرنا ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔اگر کوئی ریاست اپنے بنیادی فرائض ادا کرنے میں ناکام ہوجائے تو کیا اسے ایک فلاحی ریاست کہا جا سکتا ہے۔

ایک بڑے اخبار میں شائع گمشدہ افراد کے متعلق کالم دیکھا تو رہا نہیں گیا اور بے ساختہ چند مزید گمشدہ افراد یاد آگئے جو ہر مرتبہ مسلکی تعصب کا نشانہ بن جاتے ہیں اور کبھی کوئی ان کا ذکر تک نہیں کرتا۔ریاستی رٹ کی طرف متوجہ کرتے ہوئے   موصوف نجانے کیوں ایک خاص مسلک کے جبری گمشدہ افراد سے چشم پوشی کر رہے ہیں۔موصوف نے ریاست کی رٹ قائم کرنے کی بات تو کی مگر ان کو ان بے گناہ افراد کی کچھ خبر نہیں جو بیلنس پالیسی کا حصہ بن گئے ہیں۔

کبھی کبھار سننے کو ملتا ہے کہ ان کے پڑوسی ملک سے تعلقات تھے اور اسی بات کو بنیاد بنا کر ان کے لواحقین اور متعلقین کو دھمکایا جاتا ہے کہ خبردار احتجاج نہ کرنا ،وگرنہ اگلا نشانہ تم بھی ہو سکتے ہو۔

بفرض محال اگر ایسا ہے تو پھر کاہے کے سہارے ڈھونڈنے جاتے ہیں، ثبوت لائے جائیں اور ان کو منظر عام پر لایا جائے اور سزا دی جائے کوئی ایک فرد بھی بات نہیں کرے گا کیونکہ ہم پاکستان کے باوفا بیٹے ہیں اور مادر وطن سے محبت ہماری رگ رگ میں بسی ہے ۔اس سے غداری کا خیال بھی گناہ کبیرہ تصور کرتے ہیں۔

یہ درست ہے کہ ہمارا پڑوسی ملک سے تعلق فکر و مکتب کا ہے اور ہمارے مقدس مقامات وہاں موجود ہیں۔مگر ہم پاکستانی تھے،ہیں اور رہیں گے۔سرزمین پاکستان تو ہمارے پُرکھوں نے قربانیاں دے کر حاصل کیں  اور ہم اس کے وارث ہیں۔

زاہد عباس ساہیوال سے تعلق رکھتے ہیں اور لاہور میں دنیا نیوز میں سینئر ایڈیٹر تھے۔توقیر حسین عبدالحکیم سے تعلق رکھنے والے جوان ہیں جو معاش کے سلسلے میں لاہور مقیم تھے جبکہ وجاہت حسین مریدکے کے رہائشی ہیں۔
ان تین افراد سمیت کئی شہروں سے جوانوں کو جبری لاپتہ کیا گیا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت تھے تو اس طرح لاپتہ کرنے کا کیا جواز بنتا تھا؟ 

لاپتہ ایک جگہ سے کیا جاتا ہے اور کچھ عرصہ بعد چوتھے ضلع میں ظاہر کر دیا جاتا ہے۔گھر والوں کو اطلاع کی جاتی ہے اور پھر مقدمہ چلتا ہے۔بے بنیاد اور جھوٹا الزام جس کا کوئی ایک ثبوت بھی دستیاب نہیں ہے اور ہماری عدالت (جہاں ہم ہر دروازہ بند ہونے کے بعد امید کی نظر رکھتے ہیں) وہ اس جھوٹے الزام کی بنیاد پہ فیصلہ سنا دیتے ہیں۔

ایسے ملک میں جہاں ملک لوٹنے والے، کرپٹ ترین لوگ،جیلیں توڑ کر فرار ہونے والے اور وطن عزیز میں بے امنی کی فضا کے ذمہ دار، ہمارے جوانوں ،بزرگوں اور بچوں کے قاتل،ہمارے  فوجی جوانوں کے سروں سے فٹ بال کھیلنے والے دہشتگرد سرعام دندناتے پھرتے ہیں وہاں ایسے الزامات کہ جن کا کوئی صاحبِ  عقل و شعور باآسانی تجزیہ کر سکتا ہے(جس کالعدم تنظیم کا الزام ہے اس کا وجود ہی نہیں ہے )۔اس سے پہلے بھی ایسا ہو چکا ہے کہ اسی مسلک کے جوانوں کو لاپتہ کیا جاتا ہے کیونکہ یہ آسان نشانہ ہیں اور پھر غلط فہمی کا کہہ کر کچھ سالوں بعد چھوڑ دیا جاتا ہے مگر وہ افراد معاشرے میں کیسے سروائیو کر سکتے ہیں؟ کیا ہمارے ملک کے ہر ایک مسئلے پر نظر رکھنے والے افراد کو یہ مسئلہ نظر نہیں آتا یا پھر وہ دانستہ طور پر چپ رہتے ہیں کہ کہیں وہ خود نشانہ نہ  بن جائیں۔

دنیا بھر میں جبری طور پر لاپتہ کیے گئے انسانوں چاہے وہ کسی مذہب ملک یا قومیت سے تعلق رکھتے ہوں ۔بالخصوص حالیہ جبری اغواء  شدگان کہ جن کے لئے کوئی سوشل میڈیا ایکٹوسٹ،کوئی سیاستدان اور کوئی صحافی بولنے سے کتراتا ہے کی نذر معروف مزاحمتی شاعر جناب احمد فرہاد کی نظم:

لوگ گمشدہ نہیں ؟
گمشدہ تو خواب ہیں
خواب آدمی کے خواب
خواب ہر کسی کے خواب
خواب زندگی کے خواب
خواب آگہی کے خواب
خواب روشنی کے خواب
خواب آشتی کے خواب
خواب شانتی کے خواب
اور برابری کے خواب

لوگ گمشدہ نہیں
گمشدہ تو ملک ہے
عدل کی ہوا سیمت
امن کی دوا سمیت
چین کی دعا سمیت
صبر کی جزا سمیت
ابر کی صدا سمیت
تیرے ناخدا سمیت
اور مرے خدا سمیت

لوگ گمشدہ نہیں
گمشدہ تو آپ ہیں
مسندِ  ضمیر سے
آپ صاحب جفا
آپ صاحب رضا
آپ صاحبِ  عطا
آپ صاحب ِصدا
آپ صاحب ِ ریا
آپ صاحب ِقضا

لوگ گمشدہِ نہیں
گمشدہ تو عہد ہے
تخت اور فرد کا
زور کے خمار میں
خون کے فشار میں
خوف کے حصار میں
چشم انتظار میں
ضبط کے مدار میں
عسکری غبار میں

لوگ گمشدہ نہیں
گمشدہ تو بات ہے
جو سہی نہیں گئی
جو کہی نہیں گئی
جو سنی نہیں گئی
جو بُنی نہیں گئی
جو چُنی نہیں گئی

Advertisements
julia rana solicitors london

لوگ گمشدہ نہیں
گمشدہ تو خواب ہیں!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply