• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ناگزیریت ایک دھوکہ ہے ۔۔۔۔ حافظ صفوان محمد چوہان

ناگزیریت ایک دھوکہ ہے ۔۔۔۔ حافظ صفوان محمد چوہان

کسی موقع یا جگہ کے لیے خود کو یا کسی کو ناگزیر سمجھنا بہت بڑا دھوکہ ہے۔ ایسے “ناگزیروں” سے قبرستان بھرے پڑے ہیں بلکہ پٹے پڑے ہیں۔ تجربے سے یہ بات معلوم ہوئی کہ پیر خود نہیں اڑتے، مرید انھیں اڑاتے ہیں۔ مطلب یہ کہ کسی شخص میں کسی عہدے کے لیے ناگزیر ہونے کا واہمہ یا نرگسیت نہ بھی پائی جاتی ہو تب بھی یہ ہوتا ہے کہ اس ہوا خواہ اور طرفدار اسے اس مقام کے لیے ناگزیر بناکر پیش کرتے ہیں خواہ اہلِ نظر میں اس کی حیثیت square peg in a round hole والی کیوں نہ ہو۔

اپنے من چاہے بندے کو ناگریز سمجھنا ایک مائنڈ سیٹ ہے اور کسی بھی طبقے کے لوگ اس سے بچے ہوئے نہیں ہیں۔ ترکی کی عثمانی خلافت زائد المیعاد ہوکر اپنے انجام کو پہنچی تو دنیا میں سب سے مالدار مسلمان حکمران اب صرف میر عثمان علی، آخری نظامِ حیدر آباد دکن تھے۔ معزول شدہ ترک خلیفہ نے اپنی دو لڑکیاں میر عثمان علی کے بیٹوں سے بیاہ دیں۔ شادی کا بڑا ہنگام ہوا جو کئی دن چلا۔ ایک شام شاہی بگھی پر یہ دونوں شہزادیاں عوام کو درشن دینے نکلیں۔ یہ پہلی لائیو حورم سلطان تھیں جو برِ صغیر کے مسلمانوں نے دیکھیں۔ بیشتر تو مبہوت ہوگئے اور جن میں قوتِ گویائی تھی انھوں نے قصیدے لکھے۔ ان قصیدوں میں ان دربدر ہونے والی شہزادیوں کی حیدر آباد آمد سے امتِ مسلمہ کی نشاۃِ ثانیہ کی نوید سنائی گئی تھی۔ ترک خلیفہ گھر بیٹھ رہا تھا لہٰذا اب نظام حیدر آباد کو امتِ مسلمہ کا ناخدا سمجھا اور باور کرایا جا رہا تھا۔ وقت نے دیکھا کہ یہی میر عثمان علی خان 1948 میں نہرو کی فوج کشی کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئے اور پھر 1965 کی پاک بھارت جنگ میں بھارت کے جنگی فنڈ میں پانچ ہزار کلو گرام سونا عطیہ کر رہے تھے۔

17 اگست 1988 کی گرم دوپہر کو بہاول پور میں ہم لوگوں نے اپنے گھر کے اوپر سے دو چمکتے ہوئے سی ون تھرٹی جہاز گزرتے دیکھے۔ یہ معمول کا فضائی راستہ نہیں تھا، اس لیے یہ بات نوٹ کرنے کی تھی۔ چند گھنٹے بعد معلوم ہوا کہ صدرِ پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق کا جہاز پھٹ گیا ہے۔ اس وقت واحد پی ٹی وی تھا، جس پر ہر بندہ رو رہا تھا۔ ہمارا سارا شہر بھی رو رہا تھا سوائے اردو کے مرحوم پروفیسر رشید الزمان اور صادق ایجرٹن کالج کے پرنسپل پروفیسر غفر اللہ خاں صاحب کے۔ خاں صاحب بہت نستعلیق آدمی تھے لیکن ضیائی جمہوریت کے حامی نہ تھے۔ ہم طلبہ ان سے کہہ رہے تھے کہ فوج کا اور ملک کا اتنا نقصان ہوگیا، اب کیا ہوگا؟ کہنے لگے کہ جو خود کو ناگزیر سمجھتا ہے وہ ایسے ہی جایا کرتا ہے۔ پوچھا کہ اتنے اچھے اور اہل لوگ کہاں سے آئیں گے۔ کہنے لگے کہ کل صبح کا اخبار دیکھ لینا۔ ہر عہدے پر نیا آدمی آ چکا ہوگا۔ اور ایسا ہی ہوا۔ کوئی کام نہیں رکا۔ سوگواری جلد ہی خوشگواری سے بدل گئی۔ نئے لوگ آگئے۔ زندگی معمول پر آگئی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یاد رکھنا چاہیے کہ جہاں یہ محسوس ہو کہ فلاں آدمی کے بعد کیا ہوگا یا فلاں آدمی اگر یہ عہدہ یا ملک چھوڑ گیا تو کام کا کیا بنے گا، وہاں اصل میں ادارہ کمزور ہوتا ہے۔ ہمیں اداروں کو مضبوط کرنا چاہیے۔ لوگ آتے جاتے رہتے ہیں۔ ادارے نظام کے چلنے سے مضبوط ہوتے ہیں۔ نظام پر اعتماد ہو اور نظام میں شفافیت ہو تو برے سے برا ادارہ بھی اچھے نتائج دیتا ہے۔ آج جو لوگ جمہوریت کے لیے میاں محمد نواز شریف کو، پیپلز پارٹی کے لیے بھٹو خاندان یا اس سے رشتہ داری کو، فوج کے لیے جنرل راحیل شریف کو یا خدا رکھے سابق کپتان کو حزب مخالف کے لیے ناگزیر خیال کرتے ہیں ان میں سے بیشتر پر خوف کی نفسیات غالب ہے۔ اس خوف سے باہر نکلنا چاہیے۔ یہ بیس کروڑ لوگوں کا ملک ہے اور حیرت اس بات پر ہے کہ ہم ان چار لوگوں کو ناگزیر سمجھ رہے ہیں۔ اگر یہ لوگ منظر سے ہٹ بھی جائیں تو نہ ملک رکے رکے گا اور نہ نظام قدرت۔ یہاں کسی بات سے کسی بھی شخص کی تحقیر ہرگز مقصود نہیں، عرض کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ادارے مضبوط بنائیے اور انہیں مضبوط رکھیے۔ یہی ملک اور معاشروں کو زندہ رکھتے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply