پریکٹیکل بنو اور بناؤ/امیر جان حقانی

گزشتہ دو سال سے میں بہت زیادہ پریکٹیکل ہوگیا ہوں. مجھے دو چیزوں نے پریکٹیکل بنا دیا ہے. ایک وقت اور حالات نے، دوسرا مدرسے کی تعلیم اور زندگی نے. یہ درست بات ہے کہ میرا بیگ گراونڈ دیہاتی ہے. دیہاتی زندگی حقیقی معنوں میں عملی زندگی ہوتی ہے. لوگ سال بھر کام کرتے ہیں، میں گاؤں میں زیادہ نہیں رہا، مڈل تک، نصف تعلیم چلاس شہر میں تکمیل ہوئی اور نصف گاؤں گوہرآباد میں. چلاس میں، میں اور میرا کزن تنویر احمد حقی، دوسری، تیسری، ساتویں اور آٹھویں جماعت میں اپنے کپڑے خود دھوتے تھے. اور روٹی سالن بھی خود پکاتے تھے اور برتن بھی خود دھوتے تھے. تایا ابو کے علاوہ سب گھر والے گوہر آباد میں ہوتے تھے تب. یوں میں بہترین کُک بھی ہوں.کمال کی روٹیاں بھی پکا سکتا. مجھ سے اچھا چائے کوئی نہیں پکا سکتا جو میرے قربت میں ہیں. اپنی فیملی کی شادیوں میں باقاعدہ سالن خود بناتا اور دیگر تمام پکائیوں کی نگرانی کرتا. چلاس میں اپنے تایا ابو عذرخان صاحب اور کچھ عرصہ بھائی سلیم کے کپڑے دھونا اور استری کرنا بھی ہم نے اپنے ذمہ لیا ہوا تھا. یہ بھی بچپن میں ایک پریکٹیکل لائف تھی. ہمارے دادا جان بھی کھیتی باڑی کے چھوٹے چھوٹے کام ہمیں سکھایا کرتے تھے. کبھی کبھی جنگل سے کاٹ کر لکڑی لانا، ماموں لوگوں کی بکریاں چرانا اور ان کا دودھ نکالنا میرے پسندیدہ مشاغل تھے.

بہر حال آٹھویں پاس کرنے کے بعد ہم کراچی سدھار گئے. مختلف مدارس میں تعلیم حاصل کی.مدارس میں بہت سارے کام طلبہ کرتے ہیں. مثلاً اپنے کپڑے دھونا، استری کرنا، اور باری باری طلبہ کو کھانا کھلانا، مطعم کی صفائی کرنا ، مدرسہ کے لان کی صفائی، مسجد کی صفائی، درسگاہوں کی صفائی، واش رومز کی صفائی طلبہ کرتے ہیں. چھوٹے مدارس میں ہر طالب علم یہ کام کرتا ہے. یہ سب کام میں نے بھی کیے ہیں اور اس پر مستزاد کئی سال اپنے اساتذہ کے کپڑے دھوئے اور استری کی. جامعہ فاروقیہ میں داخلے کے بعد اساتذہ کے کپڑے اور مسجد اورمدرسے کی صفائی کی توفیق نہ مل سکی. باقی سارے کام وہاں پر بھی کیے.

مدارس کے طلبہ اساتذہ کے کام اور خدمت فخریہ کرتے ہیں. بڑے مدارس میں طلبہ زیادہ ہوتے ہیں اور صفائی وغیرہ کے کاموں کے لئے ملازمین ہوتے ہیں اور اساتذہ گھروں میں فیملی کیساتھ ہوتے ہیں اس لیے طلبہ کو اساتذہ کی خدمت کا موقع کم ملتا، تاہم میری خوش قسمتی ہوئی کہ مجھے فاروقیہ جیسے بڑے ادارے میں بھی کئی اساتذہ کی مسلسل خدمت کا موقع ملا جن میں استاد ابن الحسن عباسی مرحوم، استاد عبداللطیف معتصم، استاد حبیب اللہ زکریا، استادمنظور یوسف کے چھوٹے چھوٹے کام کئی سال کیے. ان کے گھر جامعہ میں ہی تھے اس لیے زیادہ کام نہ ہوسکے.

عملی زندگی میں آیا تو اللہ نے اچھا سرکاری عہدہ دیا. پہلی ہی نوکری سترہ گریڈ کی ملی مگر اس آرام دہ نوکری کیساتھ مدرسہ نصرۃ الاسلام کے ساتھ جڑ گیا. جامعہ نصرۃ الاسلام گلگت میں تدریس و رسالہ کی ادارت کے ساتھ کئی سال بہت سے کام کیے. مثلاً میگزین آفس کی مسلسل سات سال صفائی خود کی. بہت دفعہ راتوں کو طلبہ کے واش رومز صاف کیے. شروع کے سالوں میں سالانہ تعطیلات میں دو دو ماہ، میں ہی پورے واش رومز صاف کرتا. مدرسہ خالی ہوتا تھا. تب جون جولائی میں سالانہ تعطیلات ہوتی تھی، جامعہ کا چار حصوں پر مشتمل لان کو پانی دیا کرتا تھا.نلکوں سے چار حصوں پر مشتمل بڑے لان کو پانی دینا جان جوکھوں کا کام تھا جو بڑے ذوق سے کیا کرتا تھا. یہ تربیت مجھے دینی مدارس سے ہی ملی تھا اور یہ ثواب کی نیت سے کیا کرتا تھا. کیونکہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے.

جامعہ نصرۃ الاسلام سے باہر شفٹ ہونے کے بعد جوٹیال جانا ہوا. وہاں بھی بہت سارے کام کیا کرتا. مثلا گائے کے لیے تازہ چارہ چاہیے ہوتا. کوئی کھیت خریدتا اور پورا سیزن چارہ خود کاٹتا تھا. بہن بھائی بھی ساتھ دیتے تھے. ہمارے ہاں شہروں میں عموماً ان کاموں کو معیوب سمجھا جاتا ہے اور بالخصوص جن کے پاس سرکار میں اچھا عہدہ ہو، اس کو ایسے معمولی کام کرنے پر طعنے دیے جاتے ہیں. مجھے بھی یہ طعنے درجنوں لوگوں نے دیے مگر اللہ کا فضل ہے کہ مجھے فرق نہیں پڑا.
گزشتہ دو سال سے پڑی بنگلہ میں مکان کا تعمیراتی کام کروا رہا ہوں، مزدوروں کیساتھ باقاعدہ کام کرتا. بہت سارے کام خود کیے، کافی باجری جمع کیا، اس کو چھانی لگایا . پلاٹ کافی بڑا ہے. آج کل مزدور کیساتھ مل کر روڑا جمع کررہا ہوں. اپنے اسٹور کا چھت پر لکڑی خود لگایا. مٹی بھی چھان کرکے خود ہی اوپر لگا لیا. یوں تعمیراتی کاموں کا بڑا علم اور تجربہ حاصل ہوا ہے. مزدوروں ، ٹھیکیداروں اور مستریوں کے دھوکوں سے بچ رہا ہوں اور ان کی چالیں سمجھتا بھی ہوں. نئے تجربات بھی ہورہے ہیں تعمیراتی امور میں.

اپنے پلاٹ میں باغیچہ بنایا ہے. ایک سال میں چار سو کے قریب درخت لگائے ہیں. دسمبر سے ہی شجرکاری شروع کرتا ہوں. یہ دوسرا سال ہے شجرکاری کا.
گائے کے لیے چارہ بھی کاشت کیا ہے. سال بھر پودوں اور چارہ کو پانی دیتا رہا.

بہر حال ان تمام کاموں میں اپنا آٹھ سالہ بیٹا عمر علی بھی ساتھ رکھتا. وہ بڑے شوق سے میرے ساتھ لگا رہتا ہے. میری چھوٹی چھوٹی بیٹیاں بھی زور زبردستی روز میرے ساتھ پلاٹ جاتی ہیں. بہنیں اور بیویاں بھی پلاٹ یاتری کرتی رہتی ہیں. کوئی نہ کوئی کام کرتی ہیں. سبزیاں اُگاتی، ان کی صفائی کرتی ہیں اور بےکار بوٹیاں نکال دیتی ہیں.کیاریاں بناتی ہیں. پھول اور گلاب لگاتیں ہیں. سبزیوں کو پانی دیتی ہیں میرے ساتھ. گھر میں بھی خوب سبزیاں اگائی ہوئی ہیں.

یہ عملی زندگی کی تربیت ہے. یہاں بھی کئی لوگ ترچھی نگاہوں سے ہمیں دیکھتے ہیں کہ اتنا بڑا آفیسر کام کرتا ہے. اور چمہ گوئیاں بھی کرتے ہیں. انہیں کیا معلوم میرے نبی صل اللہ علیہ وسلم نے کام کیے ہیں اور جن اساتذہ سے ہم نے کسب فیض کیا ہے وہ سب بھی کام کرتے تھے.. بہت بڑے بڑے علماء و مشائخ کی سوانح عمریاں پڑھی ہیں. بڑے بڑے دنیا داروں اور دینداروں کی لائف کا مطالعہ کیا ہے . وہ اپنے گھر کے بہت سارے کم خود کرتے تھے.

یہ میرے وہ کام ہیں جو پروفیشنل ذمہ داریوں، دینی کتب کی تدریس، مستقل مطالعہ، کالم نگاری اور کاروبار کے علاوہ ہیں. ان کاموں کے ساتھ گھر والوں کو بھی ٹائم دیتا. اور قریبی رشتہ داروں کو بھی. ان کاموں سے میری سوشل لائف کھبی ڈسٹرب نہیں ہوئی.

قارئین، اس ساری تفصیل کے پیچھے میرا فکر و خیال ہے. میں نے سینکڑوں بڑے لوگوں کی آپ بیتیاں پڑھی ہیں . ان کے لائف اسٹائل کو پرکھنے کی کوشش کی ہے. مسلم ہو یا غیر مسلم، یہ سب لوگ اپنے ہاتھ سے کام کیا کرتے تھے. ان کے درمیان کچھ اقدار میں یہ قدر بھی مشترک تھی. کام کرنے کے حوالے سے میرا وژن علمی اور عملی طور پر بالکل کلیر ہے. اس لئے مجھے ان سب کاموں میں مزہ آتا ہے اور کام کو انجوائے کرتا ہوں اور کام سے محبت بھی. جب کام سے محبت ہو تو آدمی تھکتا نہیں. اور میں بھی نہیں تھکتا.

آپ رسول اللہ کی حیات طیبہ کا مطالعہ کیجیے. سیرت النبی کی کوئی سے مستند کتاب اٹھا لیجیے، آپ کو حیرت ہوگی کہ رسول اللہ کیسے کام کیا کرتے تھے. آپ کے صحابہ اور متبعین نے بھی خود کام کیا. رسول اللہ کے پاس لاکھوں جانثار تھے مگر اپنے کام خود کرتے تھے. یہی معمول اصحاب و ائمہ کا بھی رہا ہے. رسول اللہ اپنے کپڑے خود صاف کرتے، جوتے خود گانٹھتے تھے. اپنے کپڑوں کا رفو خود کرتے. اور بہت سارے کام کرتے تھے.

کام میں انسانی عظمت ہے. اس عظمت کے گرد ہی بہترین اور کامیاب معاشرے کی چکی گھوم رہی ہوتی ہے. ترقی یافتہ معاشروں میں یہ سب کام بڑے بڑے مالدار اور عہدہ دار خود کرتے ہیں.

اللہ رب العزت نے محنت اور کام کرنے والوں کو بہت پسند کیا ہے. اللہ نے کامیاب اور فطری زندگی میں محنت اور کام کی عظمت و مرتبت کا اعتراف کیا ہے.

آدم علیہ السلام سے لے کر رسول اللہ تک الہی ایادن کو انسانوں تک پہنچانے والے تمام برگزیدہ انبیاء و رسل نے خود کام کیا ہے. کام اور محنت پیغمبروں کی صفت ہے. یہ سنت انبیاء ہے.

رسول اللہ کے فرامین کی روشنی میں
حضرت آدم علیہ السلام نے کاشت کاری کی، سوت کاتا۔
حضرت نوح علیہ السلام نے لکڑی کا کام کیا. اور اپنی محنت سے کما کر کھاتے تھے۔ محنت میں ہی عزت و عظمت اور طمانیت ہے.
حضرت ادریس علیہ السلام درزی کا کام کیا کرتے تھے تھے۔
حضرت شیث علیہ السلام سوت کاتتے تھے۔
حضرت داؤد علیہ السلام بادشاہ ہونے کے باوجود لوہے کی زرہیں اور اوزار بنایا کرتے اور اس کمائی کا رزق کھاتے تھے۔
حضرت ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام نے اپنے ہاتھوں سے بیت اللہ کو تعمیر کیا.

اپنے پیارے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے محنت کو اپنا شعار بنایا ہوا تھا، کعبۃ اللہ کی تعمیر نو، مسجد کی نبویؐ کی تعمیر اور مدینہ منورہ کے دفاع کے لیے خندق کھودتے وقت آپؐ نے اپنے ہاتھوں سے کام اور محنت کش کا جو عظیم کردار کائنات کے سامنے پیش کیا وہی ہمیں پریکٹیکل انسان بننے اور بنانے کے لیے کافی ہے. آپ صل اللہ علیہ وسلم نے کسی سفر میں پڑاؤ کے دروان پکائی کے لیے لکڑیاں تک جمع کی. کاش کہ رسول اللہ کی ان اداؤں کو ہی ہم اپنے لیے مشعلِ راہ بناتے. اے کاش!

حضرت جابر بن عبد اللہؓ فرماتے ہیں کہ ہم غزوۂ احزاب کے موقع پر خندق کھود رہے تھے کہ ایک سخت چٹان آڑے آگئی۔ رسول اللہ کو صورتحال سے آگاہ کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس حالت میں کہ تین دن سے کچھ نہیں کھایا تھا اور بھوک کی شدت کے باعث پیٹ پر پتھر باندھ رکھا تھا، تشریف لائے، کدال اٹھائی اور چٹان کو ریزہ ریزہ کر دیا ۔ (بخاری شریف)
اسی طرح ایک اور روایت میں آتا ہے. حضرت براء بن عاذبؓ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم، خندق کی کھدائی کے موقع پر اپنے ہاتھوں سے مٹی اٹھا اٹھا کر باہر پھینکتے تھے۔ (بخاری شریف )
آپ صل اللہ علیہ السلام کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی اکثر کام کرنے والے تھے. بخاری شریف میں ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ اور ابوداؤد شریف میں حضرت عکرمہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرامؓ ’’عمال انفسہم‘‘ یعنی اپنے کام کاج خود کرنے والے تھے.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’خود کام کر کے کمانے والے‘‘ کی کمائی کو سب سے اچھی کمائی قرار دیا ہے ۔
بخاری شریف میں حضرت مقدام بن معدی کربؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ اس سے اچھی کمائی کوئی نہیں کہ انسان اپنے ہاتھ کی محنت سے کھائے۔

کھبی موقع ملے تو عبدالستار ایدھی کی زندگی پڑھ لیجیے. کیسے کام کیا کرتے تھے. وہ تو اپنے ہاتھوں سے کئی کئی لاوارث بچیوں کو کھانا کھلاتے اور ان کی صفائی کرتے.
کئی عشرے بغیر کسی چھٹی کے کام کیا ہے.
ہمارے استاد شیخ سلیم اللہ خان رحمہ اللہ کے متعلق سنا ہے کہ انہوں نے پوری زندگی اپنے پان کا اگالدان کسی کو صاف کرنے نہیں دیا یہاں تک کہ اپنی گھر والی کو بھی. کہا کرتے جب میں خود گندگی کرتا ہوں تو خود ہی صاف کرونگا. مفتی شفیع عثمانی رح کے بارے کہیں پڑھا تھا کہ واش روم میں دوران تقاضا، واش روم کے ساتھ پانی کا لوٹا تک صاف کیا کرتے تھے. یہ ہمارے اکابر تھے جبکہ اصاغر کا حال بہت پتلا ہے.

امریکی سابق صدر اوباما آج بھی کام کرتے ہیں اور انتہائی مالدار اور طاقتور صدر ٹرمپ کی لائف کا اسٹڈی کریں. وہ آج بھی کام کرتے ہیں. انہوں نے دوران صدارت اپنے ہوٹل میں ویٹر کے جملہ کام سرانجام دیے. یہاں تک کہ ایک گاہک کے کتے کو بھی واک کروایا.کھبی فرصت ملے تو بل گیٹس، وران بفٹ کو ہی پڑھ لیں. یہ لوگ کام کو عظمت سمجھتے ہیں اور عظمت کے میناروں کو چھو رہے ہیں.

میں نے کسی آرٹیکل میں پڑھا تھا کہ ترقی یافتہ ممالک کے وزیر مشیر اور سیکریٹریز کے پاس مختلف اوزار کا بکس یعنی ایک کٹ ہوتی ہے. وہ اپنے گھر کے بہت سارے چھوٹے موٹے کام خود کرتے ہیں مگر ہمارے ہاں معمولی گریڈ کا اے سی، ڈی سی، انجنئیر، ایکسین، سیکریٹری وغیرہ بھی اپنے گھر کا ایک بلب لگوانے کے لیے بھی کسی سرکاری ملازم کو بلواتے ہیں. چھوٹا سا گارڈن کی تزئین و آرائش کے لیے بھی سرکاری افسران کے ملازم ہوتے ہیں اور دولت مند لوگ ذاتی ملازم رکھتے ہیں.

وہ گھر کتنا بدقسمت ہوگا جن میں کھانا نوکر بناتے ہیں اور میاں بیوی مل کر نوکر کا بنایا ہوا کھانا کھاتے ہیں. کھانا تو وہی لذیذ ہوتا ہے جو بندہ گھر والوں کیساتھ مل کر خود تیار کرتا ہے یا گھر کی مائیں، بہنیں، بیویاں اور بہو بیٹیاں پکاتی ہیں. اب تو ہمارے ہاں اپنا کھانا خود گرم کرو والی روایت چل پڑی ہے. یہ افسوسناک رویہ ہے.

آپ اگر باپ ہیں تو اپنے بیٹوں کو بہترین تعلیم کیساتھ کوئی ایک ہنر ضرور سکھائیں اور گھر کے چھوٹے موٹے کام کرنا اور بچوں سے کرانا اپنے معمولات اور ترجیحات میں شامل کیجئے. آپ جب خود کام کریں گے تو آپ کو دیکھ کر بچہ پریکٹیکل بن جائے گا. رسول اللہ نے عمل پہلے کیا تقریر اور وعظ بعد میں کیا. ہمیں بھی چاہیئے کہ طلبہ اور بچوں کو لمبی نصیحتیں اور لیکچر جھاڑنے کی بجائے خود کام کرکے دکھائیں. بچے خود آپ کو کاپی کرلیں گے. آپ اگر ماں ہیں تو بچپن میں ہی بیٹوں کے ذمے چھوٹے چھوٹے کام لگا لیں اور بچت کرنے کے گُر سیکھا دیں اور بچیوں کو ترجیحی بنیادوں پر بچپن سے ہی سلائی کڑھائی اور کھانا پکانا اور گھر کو مینٹین رکھنا سکھا دیں. گھر کی منیجمنٹ، ارینجمنٹ اور مینٹینینس ایک بہت بڑا فن ہے. لاریب ماں سے بہتر ایک بچی کو یہ فن کوئی نہیں سکھا سکتا. ہمارے سکول، کالج اور یونیورسٹی کھبی نہیں اور نہ ہی ہمارے سلیبس میں اس کی گنجائش ہے. اگر بچی گھر کی بہترین ارینجمنٹ، منیجمنٹ اور مینٹینینس سیکھ گئی تو کل کسی بڑے ادارے یا محکمہ کو خوب سنبھال سکے گی. ہوم اکنامکس میں ایم اے کرنے والی خواتین سے آن پڑھ سیکھی ہوئی خواتین بریانی بھی اچھی پکاتی ہیں اور روٹیاں بھی. اور گھر بھی اچھا مینٹین رکھتی ہیں، کیونکہ ان کی ماں نے انہیں گھرداری سکھا دیا ہوتا ہے. اور وہ سگھڑ بن چکی ہوتی ہے.

Advertisements
julia rana solicitors

اگر گھر کے سب افراد کام کرنے والے بنیں تو گھر آباد ہوگا. اگر معاشرے کے سب کام کرنے والے بنیں تو معاشرہ کامیاب کہلائے گا اور اگر پورا ملک کام کرے گا تو ملک بہت جلد ترقی یافتہ ہوگا. ہمیں تیسری دنیا کے ملک کا طعنہ بھی نہیں پڑے گا. لہذا خود بھی پریکٹیکل بنو اور اپنے بچوں اور طلبہ اور گھر والوں کو بھی پریکٹیکل بنادو.

Facebook Comments

امیر جان حقانی
امیرجان حقانیؔ نے جامعہ فاروقیہ کراچی سےدرس نظامی کے علاوہ کراچی یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس اور جامعہ اردو سے ماس کمیونیکشن میں ماسٹر کیا ہے۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے شعبہ اسلامی فکر، تاریخ و ثقافت کے ایم فل اسکالر ہیں۔ پولیٹیکل سائنس کے لیکچرار ہیں۔ ریڈیو پاکستان کے لیے2010 سے مقالے اور تحریریں لکھ رہے ہیں۔اس کے ساتھ ہی گلگت بلتستان کے تمام اخبارات و میگزین اور ملک بھر کی کئی آن لائن ویب سائٹس کے باقاعدہ مقالہ نگار ہیں۔سیمینارز اور ورکشاپس میں لیکچر بھی دیتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply