گھبرانا نہیں ہے۔۔علی اختر

بہت سے دانشور شاہ کے روبرو ہیں ۔ لاک ڈاؤن پر اسرار کرتے ہیں ۔ قوم کو درپیش اس آفت کے حل کے لیے جامع پلان پیش کرتے ہیں ۔ بتا رہے ہیں کہ  کس طرح روزانہ کے  اُجرتیوں کو راشن پہنچایا جا سکتا ہے ۔ ڈراتے ہیں کہ  اس وائرس سے کیا صورت حال پیدا ہو سکتی ہے ۔ چیخ رہےہیں کہ وینٹی لیٹر نا پید اور طبی سہولیات ناقص ہیں ۔

سلطنت کے بہت سے خیر خواہ بھی آگے آتے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ  ہمیں ساتھ ملا لو۔ ۔ پندرہ دن ہی کی تو بات ہے ۔ یہ پچیس فیصد جن کی فکر آج آپ کو ستا رہی ہے کل جبکہ سڑکیں سنسان ، گلیاں ویران ہونگی تو بھی تو انہیں فاقہ کرتے مرنا ہی ہوگا ۔ آج وقت ہاتھ میں ہے ۔ ہم ریاست اطالیہ سے کچھ ہی ہفتہ دور ہیں ۔

مالیاتی ماہرین بھی دربار عالی میں دفتر لیے حاضر ہیں ۔ کرونا کی ممکنہ تدبیروں کی صورت میں پیدا ہونے والے ممکنہ خسارے کے پیشگی حل  کے لیے ۔ کچھ کہتے ہیں کہ  فوجی بجٹ میں کٹوتی کریں۔ عوام سے بھی عطیات وصول کریں ۔ یہ مسئلہ خوش اسلوبی سے انجام پا جائے گا ۔

غرض ہر طرف سے صدا ہے کہ  ابھی تک کچھ نہیں بگڑا ۔ عالیجاہ ! ابھی نہ کیا تو پھر کب کریں گے ؟۔ چین و ایران کی تباہی کی داستانیں سناتے ہیں ۔ بتاتے ہیں کہ  ہم ان سے بہت پیچھے ہیں ۔ موازنہ ، تجزیات، وعیدوں کی بھرمار ہے ۔

وہ خاموشی سے سب کی سن رہا ہے ۔ چہرے پر سکوت ، تدبر ، فکر۔ اسکی فراست جو اسے درج بالا سب ماہرین سے ممتاز کرتی تھی ۔ اسی کی بدولت ہی تو وہ عالیجاہ بنا تھا ۔

فکر جس کی بدولت  وہ سب بھی دیکھ لیتا جو دوسروں سے پوشیدہ تھا ۔ گو چہرے پر کوئی  تاثر نہ تھا لیکن وہ دل ہی دل میں ان سب کی کم عقلی پر مسکرا رہا تھا۔

اب وہ انہیں کیسے سمجھاتا کہ عقل مندی کیا ہے ؟ ۔ کیسے کبھی پرائی  جنگ میں کود پڑنا سود مند ہوتا ہے ۔ پولیس و عدلیہ کی بے قائدگی کیونکر فائدہ دیتی ہے ۔ وہ کیسے کہتا کہ  بعض صورتوں  میں عوام کو پڑھانے سے جاہل رکھنا نفع بخش ہوتا ہے ۔ کیسے بتاتا کہ  بیرونی امدادوں کی وصولی کے لیے کئی  بار ریاست اطالیہ جیسی صورتحال پیدا کرنا نا گزیر ہو جاتا ہے ۔ کیسے سمجھاتا  کہ وہ کیونکر عوام کو ہسپتالوں کی بجائے اطائی  حکیموں کے پاس جانے ، درباروں پر منتیں مانگنے ، تابوتوں سے موذی امراض کے علاج کروانے پر خاموش رہتا ہے ۔ کس طرح ان بے عقلوں کو کہتا کہ  پیدا ہوئے مسائل کا مزید فروغ اور طویل سدِ باب کیونکر فائدہ مند ہوتا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

وہ اس شور کے درمیان اپنی جگہ سے اٹھا ۔ دربار میں موجود لوگ شہنشاہ کو اٹھتے دیکھ کر  خاموش ہو گئے ۔ اس کا رخ اس جھروکے کی جانب تھا جہاں سے وہ عوام سے مخاطب ہوا کرتا تھا ۔ عوام کا جم غفیر اسے دیکھتے ہی خوش ہو گیا ۔ نعرے لگنے لگے ۔ اس نے ہاتھ اٹھا کر سب کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور بات شروع کی۔۔” گھبرانا نہیں ہے “

Facebook Comments

علی اختر
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply