بیماریاں تو اچھی ہوتی ہیں۔۔عفت نوید

محض موسمیاتی تبدیلی سے ہم بیمار پڑ جانے والے، اور بد احتیاطی کے سبب دوسروں کو بھی متاثر کرنے والے لوگ ہیں۔ ایک سو دو سو بخار میں معمولات زندگی انجام دینا ہمارے لیے کوئی بڑی بات نہیں۔جب تک کمزوری ہمیں بستر پر نہیں گراتی، ہم ڈاکٹر کو نہیں دکھاتے۔
پھر ڈاکٹرز کی فیس اور بعض اوقات غلط تشخیص، لاپروائی یا نا اہلی کے سبب رپورٹ میں گڑبڑ کی خبروں، مشاہدات اور ذاتی تجربات کی بنیاد پر ہم خود ساختہ طبیب بن کر اپنا علاج خود ہی کرنے لگتے ہیں۔اکثر ہمارے، تُکے اور ٹوٹکے کام کر جاتے ہیں اور ہم بھلے چنگے ہو کر خدا کا اپنی زندگی اور پیسے بچنے پر شکر کرتے ہیں۔
لیکن جو کبھی سیلف میڈیکیشن کا وار نہ چلا اور لینے کے دینے والی صورتحال در پیش بھی آئی  تو ڈاکٹر نے مختلف ٹیسٹ کروانے کے بعد ہائی ڈوز کی ادویات تشخیص کر کے ہماری زندگی کو تختہء مشق بنایا، اور تاکید کی کہ تیسرے روز اس کے پاس جائیں،تیسرے روز تک حالت میں بہتری آئی تو بلاوجہ فیس دینے سے کترا کر خود کو تسلی دی کہ سب ٹھیک ہے،ڈاکٹر بھی تیسرے دن اسی لیے بلاتا ہے کہ کسی نئی دوا کے سائیڈ ایفیکٹ جان سکے،چوتھے دن وہ ہماری غیر حاضری کے باوجود اپنی تجویز کردہ دوا کی افا دیت کا یقین اس لیے کر لیتا ہے کہ اگر اس کی دوا سے مریض مر گیا ہوتا تو مریض کے ورثا اب تک ڈنڈے لا ٹھیاں لے کر اس کی درگت بنا چکے ہوتے۔
پانچویں دن ہم بھلے چنگے ہو کر کام پر بھی جانا شروع کر دیتے ہیں۔
اب وہ ممالک جہاں مچھر کو دیکھ کر رنگ زرد ہو جاۓ، معمولی ڈسٹ انہیں بیمار کر دے، فلو ، ملیریا، ٹائیفائڈ جیسی بیماریوں کو وہ جان لیوا تصور کرتے ہوں،اور ان بیماریوں سے بچنے کے لیے وہ آب و ہوا، پانی اور غذا کو صاف ستھرا رکھتے ہوں، زچہ و بچہ کی صحت اسٹیٹ کی ذمہ داری ہو، اور ان اقدامات کے باعث جہاں اوسط زندگی 85 برس ہو، وہاں ان بیماریوں پر ایسے واویلا مچانا، تمام تر حفاظتی اقدامات کے با وجود زندگی کا موت کے آگے ہار جانا بنتا ہے۔
ترقی یافتہ مما لک میں اتنی اموات کے ہو جانے کا سبب ایک ہی ہے کہ ان کا مدافعتی نظام کمزور ہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم، انسان دوست، امیر اور آگاہ ممالک کی طرح اپنا خیال نہ رکھیں اور ہمارے ایٹمی اور جنگی صلاحیت سے مالا مال غریب ملک کی حکومت ان کے نقش ِ قدم پر چلتے ہوئے گھبرانے کا ڈرامہ نہ کرے، ڈرامے میں مرکزی کرداروں کی ایکٹنگ میں جتنی جان ہو گی اتنا ہی قرضہ ملے گا۔ ڈرامائی تشکیل کے لیے ملک میں فوج اور پولس کے عوام پر ڈنڈوں کی حقیقی منظر کشی بھی ضروری ہے۔
انہیں ان کے کام کرنے دیں، لیکن اس سب میں سیکھ کا پہلو ہے، کہ زندگی کو اتنا ہلکا مت لیں،بہت زیادہ بیمار ہونامدافعتی نظام کمزور کر کے عمر کم کرنے کاسبب بنتا ہے،یہ ہی وجہ ہے کہ اس وقت پاکستان میں بوڑھے اور بار بار بیمار پڑنے والوں کی زندگی رسک پر ہے۔
ہماری ڈھٹائی نے ہمارے مدافعتی نظام کو کسی حد تک مضبوط تو بنا دیا ہے لیکن دوسری طرف گندگی، بیماریوں کے بار بار آنے کی وجہ سےدنیا میں ہمارے قیام اور سکون کو مختصر بھی کر دیا ہے۔
جب کہ ترقی یافتہ ممالک میں بسنے والوں کی طبعی اوسط عمر، ترقی پذیر ممالک میں بسنے والوں سے کہیں زیادہ ہے، اور وہ زندگی سے صحیح لطف اٹھاتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply