کشمیر ۔ جموں (10)۔۔وہاراامباکر

جموں سے تعلق رکھنے والے تین بھائی گلاب سنگھ، دھیان سنگھ اور سچیت سنگھ تھے۔ سکھ سلطنت میں یہ بااثر اور طاقتور تھے۔ سکھ سلطنت میں کئی اہم عہدوں پر غیرسکھ رہے تھے اور جموں کے یہ بھائی بھی ان میں سے تھے۔ جموں اور پنجاب کے درمیان کوئی خاص جغرافیائی حدِ فاصل نہیں تھی۔ اور نہ ہی اس وقت سیاسی طور پر کچھ فرق تھا۔ لوگوں کا ایک دوسرے علاقے میں بہت آنا جانا تھا۔ لاہور سے سری نگر کے 180 میل سفر کے نصف راستے پر جموں شہر آتا تھا۔ جموں سے لاہور کا سفر جموں سے سری نگر کے مقابلے میں بہت آسان تھا۔ اس لئے یہاں رہنے والوں کے زیادہ معاشرتی یا تجارتی روابط کشمیر کے مقابلے میں پنجاب سے تھے۔ آج پنجاب اور جموں کے درمیان سیاسی رکاوٹیں ہیں، لیکن سکھ حکومت کے وقت ایسا نہیں تھا۔ یہ عملاً پنجاب کی ایکسٹینشن تھی۔ جموں کے حکمرانوں کی پنجاب میں زمینیں تھیں اور یہی دوسری سمت میں بھی تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لاہور سکھ سلطنت کا دارالحکومت تھا اور غیرسکھ آبادی کے لئے پرکشش شہر تھا۔ سکھ آرمی میں بہت سے مسلمان اور ہندو شامل تھے اور کچھ کرسچن بھی۔ اس میں یورپی افسر بھی شامل تھے۔ لاہور دربار میں ان سب کو ترقی کے مواقع میسر تھے۔ اور ان ترقی کے مواقع سے گلاب اور دھیان سنگھ نے بہت فائدہ اٹھایا تھا۔ انہوں نے سکھ سلطنت کو بڑھانے میں بڑا کردار ادا کیا تھا۔ یہ رنجیت سنگھ کے معتمد تھے۔ 1831 میں ایک فرنچ مورخ نے لکھا ہے کہ “اگرچہ گلاب سنگھ ناخواندہ ہیں لیکن رنجیت سنگھ کے پسندیدہ ہیں اور میرے خیال میں اگلے حکمران بنیں گے”۔ سکھ سلطنت نے ان بھائیوں کو اپنے علاقوں اور جاگیروں میں خودمختاری دی ہوئی تھی۔ (اس وقت میں سیاست کا طریقہ یہی ہوا کرتا تھا)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گلاب سنگھ ہندو ڈوگرا تھے جن کا تعلق جاموال راجپوت قبیلے سے تھا۔ ان کے والد فوجی تھے۔ جب مغل سلطنت کمزور پڑی تھی تو اس علاقے میں افغان اور سکھ فوج کے درمیان قبضے کے لئے جنگ رہی تھی۔ جب رنجیت سنگھ نے لاہور پر قبضہ کیا تھا تو گلاب سنگھ سات سال کے تھے۔ رنجیت نے 1808 میں جموں کے علاقے پر قبضہ کر کے یہاں کی خودمختاری ختم کر دی تھی۔ اس وقت گلاب سنگھ کی عمر سترہ برس تھی اور وہ پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے۔ انہوں نے اگلے تین سال کشتواڑ کے راجہ کی فوج میں کام کیا اور جموں کے راجہ کے خلاف جنگ میں بہادری سے نام بنایا۔ اس کے بعد سکھ فوج میں سپاہی بن گئے۔ افغانوں کے خلاف کشمیر میں 1813-14 اور پھر 1819 میں جنگ لڑی۔ جالندھر میں 1815 اور ملتان میں 1818 میں جنگ کی۔ جموں میں 1819 کی بغاوت کچلی۔ ان کی شہرت جموں کی بغاوت کے دوران بڑھی۔ انہیں مقامی علاقے کا علم تھا۔ چالاکی اور سفاکی ان کی شہرت تھی۔ جموں حکومت کرنے کے لئے مشکل جگہ تھی۔ یہاں پر لوگوں پر کنٹرول رکھنا اور ٹیکس وصول کرنا آسان نہیں رہا تھا۔ اپنی دہشت کی وجہ سے گلاب سنگھ ٹیکس نکلوانے میں اتنے موثر رہے تھے کہ ایک مورخ نے انہیں “جموں کا ویمپائر” کہا ہے۔
اپنی شجاعت اور صلاحیت کی وجہ سے سکھ مہاراجہ کی نظر ان پر پڑ گئی۔ یہ تعلق دونوں کے لئے مفید رہا۔ گلاب سنگھ کو ان کی خدمات کے اعتراف میں جموں کے شمال میں 1815 میں ریاسی کا علاقہ دے دیا گیا۔ جبکہ جموں کے بغاوت کچلنے کے انعام میں گلاب سنگھ کو 1822 میں جموں کا حکمران بنا دیا گیا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے راجا گلاب سنگھ کی تخت پوشی کی تقریب میں خود حصہ لیا۔ گلاب اس وقت تیس سال کے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈوگرہ نے اپنی ریاست میں راجوڑی، باشولی، کشتواڑ اور اخنور کے علاقے بھی قبضہ میں کر لئے۔ 1834 میں گلاب سنگھ کے افواج نے لداخ کا دورافتادہ مقام قبضے میں کر لیا۔ قراقرم، لداخ، زنسکار اور ہمالیہ کے پہاڑوں میں یہ گلاب سنگھ کی اہم ترین فتح تھی۔ یہاں سے نفیس اور مہنگی اون آیا کرتی تھی جو پشم (پشمینہ) کہلاتی تھی۔ اس سے کشمیری شال بنا کرتی تھی۔ 1837 میں گلاب سنگھ کے بھائی دھیان کی جاگیر میں بغاوت ہوئی۔ یہ پونچھ جاگیر تھی۔ گلاب سنگھ نے اس کو انتہائی سختی سے کچل دیا۔ (اس علاقے میں گلاب سنگھ کی سفاکی کا آج بھی تذکرہ کیا جاتا ہے)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رنجیت سنگھ کے لئے گلاب سنگھ بہت مفید تھے۔ اسی وجہ سے انہیں اپنی فوج رکھنے کی اجازت دی گئی تھی۔ ایک مشکل علاقہ انہوں نے سنبھالا ہوا تھا۔ اور سکھ سلطنت کو وسعت دی تھی۔ گلاب اور ان کے ساتھی سکھ آرمی کی طرف سے لڑتے تھے۔ رنجیت اور گلاب اچھے ذاتی دوست تھے۔
ایک ناخواندہ سپاہی کی بااثر راجہ تک ترقی ۔۔۔ گلاب سنگھ کا یہ غیرمعمولی عروج تھا۔
(جاری ہے)

Advertisements
julia rana solicitors

ساتھ لگی تصویر جموں سیالکوٹ ٹرین کی۔ اس کا آغاز 1890 میں ہوا۔ جموں سے سیالکوٹ ستائیس میل کا سفر تھا۔ وزیر آباد سے جموں تک ٹرین کا نوے منٹ میں پہنچتی تھی۔ یہ ٹرین 18 ستمبر 1947 میں کشمیر جنگ چھڑ جانے کے نتیجے میں عارضی طور پر معطل کر دی گئی۔ یہ ابھی تک معطل ہے۔ جولائی 2001 میں آگرہ سمٹ میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان اس کی بحالی پر بھی بات چیت ہوئی جو نتیجہ خیز نہیں رہی۔ پاکستان ریلوے نے 2013 میں تفصیلی سروے مکمل کیا اور تخمینہ لگایا کہ اس کی مرمت دوبارہ کرنے پر خطیر خرچ آئے گا۔ اس کی بحالی کا جلد امکان نہیں لگتا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply