پیالی میں طوفان (84) ۔ جھٹکا/وہاراامباکر

شمالی امریکہ میں موسمِ سرما کی سردی کڑاکے کی ہوتی ہے۔ ایسی ایک صبح آنکھ کھلی تو باہر پہلی برف پڑ چکی تھی۔ جیکٹ، بوٹ، مفلر، دستانے، ٹوپی پہن کر برف صاف کرتا ہوا گاڑی تک پہنچا۔ جب گاڑی کو چھوا تو اس نے زناٹے دار برقی جھٹکے سے خوش آمدید کہا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اور نہیں، اس میں گاڑی کا قصور نہیں تھا۔ جب میں چل کر جا رہا تھا تو میرے ساتھ مسافروں کا ٹولہ تھا جو کہ بھاگنے کا راستہ تلاش کر رہے تھے۔ اور مجھے لگنے والا جھٹکا ان کے فرار ہونے کا سائیڈ ایفکٹ تھا۔ یہ مسافر الیکٹرون تھے۔ مادے کا بہت ہی چھوٹا حصہ اور ہماری دنیا کے بنیادی بلڈنگ بلاک۔
الیکٹرون کے بارے میں ایک مزے کی چیز یہ ہے کہ ان کو جاننے کے لئے کوئی بڑا پارٹیکل ایکسلریٹر یا کوئی پیچیدہ تجربہ گاہ درکار نہیں ہے۔ ہمارا جسم ان کی حرکت کا براہِ راست بھی پتا لگا سکتا ہے اور یہ حیران کن ڈیٹکٹر اس کو تکلیف کی صورت میں رجسٹر کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایٹم کے مرکز میں بھاری نیوکلئیس ہے جو ایٹم کا بیشتر stuff ہے۔ بھاری بھرکم نیوکلئیس مثبت چارج رکھتا ہے تو عام طور پر یہ اکیلا نہیں ہوتا۔
برقی چارج ایک عجیب و غریب تصور ہے لیکن یہ ہماری دنیا کو باندھ کر رکھتا ہے۔ ہم جتنی چیزیں دیکھتے ہیں، تقریباً اس سب کو بنانے کے پیچھے تین ہی چیزیں ہیں۔ پروٹون، الیکٹرون اور نیوٹرون۔ پروٹون پر مثبت چارج ہے اور یہ الیکٹرون سے بہت زیادہ بھاری ہیں۔ نیوٹرون تقریباً پروٹون کے سائز کے ہیں اور ان پر کوئی چارج نہیں۔ اور الیکٹرون بہت کم ماس رکھتا ہیں لیکن ایک الیکٹرون اتنا ہی منفی چارج رکھتا ہے جتنا کہ ایک پروٹون۔ اور یہ بلڈنگ بلاک ملکر ہماری دنیا کا سٹرکچر بناتے ہیں۔ بھاری نیوکلئیس تو مرکز میں ہے لیکن ایٹم کو برقی طور پر متوازن بھی ہونا ہے۔ برقی چارج کا دنیا پر اثر ہے کیونکہ ایک سے چارج دھکیلتے ہیں اور مخالف چارج ایک دوسرے کو کھینچتے ہیں۔ مجموعی طور پر، مثبت اور منفی ایک دوسرے کو کینسل کر دیتے ہیں لیکن ان کی باہم کشش ایٹم کو اکٹھا رکھتی ہے۔ تمام مادہ، جو ہم دیکھتے ہیں، الیکٹرون سے بھرا پڑا ہے۔ لیکن چونکہ ہر چیز متوازن ہے، اس لئے ہم ان کو نوٹ نہیں کرتے۔ صرف اس وقت کرتے ہیں جب یہ حرکت میں ہوتے ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ جب ہمارے پاس الیکٹرون جیسے چھوٹے اور پھرتیلے کھلاڑی ہیں تو یہ ہمیشہ توازن میں نہیں رہتے۔ جب الگ میٹیریل ایک دوسرے کو چھوتے ہیں تو الیکٹرون اچھل کر دوسرے میں جا سکتے ہیں۔ یہ ہوتا رہتا ہے، لیکن اس سے فرق نہیں پڑتا کیونکہ اضافی الیکٹرون واپسی کا راستہ عام طور پر جلد ہی ڈھونڈ لیتے ہیں۔ اپنے جرابوں میں کمرے میں پھرتے وقت مسئلہ نہیں تھا۔ ہر قدم کے ساتھ قالین سے کچھ الیکٹرون اچھل کر پیروں تک پہنچ جاتے تھے لیکن واپس چلے جاتے تھے۔ جب میں نے اپنے موٹے تلے والے جوتے پہنے تو یہ بدل گیا۔ آوارہ الیکٹرون قالین سے تلووں تک پہنچ رہے تھے لیکن کچھ میٹیریل ایسے ہیں جہاں سے انہیں گزرنے میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔ ان کو انسولیٹر کہا جاتا ہے اور میرے جوتے یہی کام کر رہے تھے۔ ان میں اپنے بے شمار الیکٹرون تو ہیں لیکن یہ اضافی الیکٹرون آسانی سے جذب نہیں کر سکتے۔ جب میں نے اپنا بیگ اٹھایا، کوٹ پہنا تو الیکٹرون جمع ہو رہے تھے۔
یہ الیکٹرون میرے جسم پر سیر کر رہے تھے اور جب تک میں گاڑی تک پہنچا تو میرے پاس کئی ہزار ارب اضافی الیکٹرون جمع تھے۔
یہ فرار کیوں نہیں ہو سکتے تھے؟ ہر اضافی منفی چارج والا الیکٹرون دوسرے سے دھکیلا جا رہا تھا۔ اور انہیں باہر جانا ہی تھا۔ لیکن بوٹ کے ذریعے یہ راستہ نہیں مل رہا تھا۔
عام دنوں میں ہوا میں آبی بخارات موجود ہوتے ہیں اور یہ ان پر سواری کر کے نکل جاتے ہیں لیکن سرد اور خشک دن میں آبی بخارات نہیں تھے اور ہوا کے ذریعے ان کو باہر جانے کا راستہ نہیں ملا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گاڑی زمین پر کھڑی تھی اور جیسے ہی میری انگلی نے اسے چھوا تو ان سب کو باہر جانے کا راستہ مل گیا۔ دھات کنڈکٹر ہے جس میں سے الیکٹرون آسانی سے بہہ سکتے ہیں۔ یہ آخر آزاد ہو گئے۔ اور جب ان کا ہجوم انگلی کے راستہ بھاگا تو یہاں پر اعصابی کنارے کو جھنجھنا دیا۔
یہ سٹیٹک الیکٹرسٹی کا جھٹکا تھا جس نے منہ سے اف نکلوا دی۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply