کرونا چھٹیاں اور ہم۔۔ڈاکٹر حافظ عثمان اسد

کرونا آیا ،چھٹیاں ہوئیاں، سارے لوکی گھر   نوں آئے
پر سکھ نہ ملیا محمد بخشا جیہڑے گھر ویہلے بٹھائے

جب سے یونیورسٹی سے چھٹیاں ہو ئی  ہیں گھر ویہلے بیٹھے ہیں، نہ باہر نکل سکتے ہیں نہ کوئی پارٹی کر سکتے ہیں، نہ کہیں جا سکتے ہیں، ایسے میں گھر نظربند رہتے ہوئے کیا مصروفیت ہو سکتی ہے ۔دیکھتے ہیں ایک طالب علم کی نظر سے۔

ہاتھ میں فون ہے، کانوں میں ہینڈز فری، قمیض کے بٹن کُھلے ہوئے، بال بکھرے ہوئے، شیو بڑھی ہوئی ، زرد دانت چمکتے ہوئے، آنکھیں اَدھ کھلی ہوئی اور آنکھوں کے گرد گہرے سیاہ حلقے۔ ایک پاؤں میں آدھی جراب دوسرا کمبل سے باہر۔ پشت پہ تین تکیوں کی ٹیک۔ یہ کرونا کا مریض نہیں یونیورسٹی کا فارغ البال و عقل و سمجھ  والا  ، طالب علم  ہے۔

تم کو آشفتہ مزاجوں کی خبر سے کیا کام
تم سنوارا کرو بیٹھے ہوئے گیسو اپنے

سر کے اوپر بجلی ساکٹ میں لیپ ٹاپ اور فون چارجر ایک ساتھ ،جیسے آکسیجن سپلائی دی جا رہی ہو۔ لیپ ٹاپ بیگ کی کھلی ہوئی جیب میں خراب پاور بینک، کنگھی، شیشہ، اور باڈی سپرے، یہ تینوں چیزیں پچھلے تین دن سے استعمال ہی نہیں کی گئیں ۔

لیپ ٹاپ کھلا پڑا ہے پچھلے چند گھنٹوں سے استعمال نہ ہونے کی وجہ سے Sleep موڈ پہ جا چکا ہے کیونکہ موصوف فون میں واٹس ایپ پہ بزی ہیں۔ بہن بھائی نے مانگ لیا تو اس لیے نہیں دینا کہ مجھے کام ہے، آنلائن کلاس ہے، میل کرنی ہے، اور بھلے گھنٹوں ایسے ہی پڑا رہے۔ موبائل کی بیٹری ختم ہوتی ہے تو لیپ ٹاپ کی شامت آتی ہے۔

گھر والوں نے آواز دی بیٹا کھانا کھا لو لیٹے لیٹے کروٹ لی  Half lying  میں مریضوں کی طرح کھانا کھایا اور پھر ڈیجیٹل مصروفیت۔ اسی حالت میں امی نے کہا بیٹا دہی لا دو، پہلے تو سنی ان سنی کر دی، پھر آواز آئی(ذرا تیز) تمہیں کہا ہے دہی لا دو، پھر کچھ نہ سمجھنے کے انداز سے نظرانداز کیا، پھر آواز آئی (غصہ بھری) تینوں کیا اے دہی لیا دے، نہیں جانا تو میں خود لے آتی ہوں ساتھ ہی امی نے چادر پکڑی اور دروازے کی طرف بڑھنے لگیں۔

اب چاروناچار اٹھنا ہی پڑا۔ پہلے تو سمجھ نہ آئے چلنا ہے دوڑنا ہے یا چھلانگ لگانی ہے ۔ حواس بحال ہوئے تو قسطوں میں بیڈ سے اترے، ٹوٹا جوتا پاؤں میں اڑیسا اور فقیروں کی طرح آئی ایم ایف کے آگے ہاتھ پھیلا دیا ،لائیے پیسے کتنا دہی لانا ہے۔ پیسے جیب میں ٹھونسے آہستہ آہستہ یوں چلنا شروع کیا جیسے رعشہ  Parkinsonism  کا مریض چلنے کی کوشش کرتا ہے اور لڑکھڑاتے ہوئے گھر سے باہر نکلے۔

ساتھ والے گھر میں شادی تھی آنٹی باہر فقیروں میں خیرات بانٹ رہی تھیں میں گزرا تو مجھے بھی میٹھے چاولوں کا شاپر اور چالیس روپے تھما دیے۔ میں ہونقوں کی طرح ان کا منہ دیکھنے لگا میری بات سنے بغیر مجھے دعا بھی دے ڈالی بیٹا حوصلہ کرو اللہ صحت دے گا۔ غالب نے شاید ایسے ہی نازک موقع کے لیے کہا تھا۔

بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالبؔ
تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں

دہی لے کر واپس آرہا تھا کہ گلی میں  ایک  بچہ نذر  نیاز  کی خاطر نان حلوہ تقسیم کر رہا تھا مجھے گزرتے ہوئے بغیر اجازت میرے سیدھے ہاتھ پہ الٹا نان اور حلوہ ڈال دیا اور یوں سر جھکا کر کھڑا ہو گیا کہ یہ فقیر اب دعا دے گا۔ اتنے میں پرانے قرض خواہ کی کال آگئی جو کہ اپنے دوسال پرانے قرضوں  کا مطالبہ کرر ہا تھا اور میں ترلے منتیں کرنے کے بعد  دعائیں دے رہا تھا کہ اللہ تیری زندگی کرے برکت دے بس یہ مشکل وقت گزارنے دو (آواز بھی بلند ہوتی گئی) ۔ اتنے میں،  میں اپنے گھر کے قریب پہنچ چکا تھا۔

اب حالت یہ ہے کہ بکھرے بال ٹراؤزر پر قمیض، ایک کف اوپر کیے ہوئے، دوسرے کا بٹن کھلا ہوا، ایک ہاتھ میں دہی میٹھے چاول کا شاپر اور نان حلوہ، دوسرے ہاتھ سے فون کان کو لگایا ہوا اوپر سے دوست کو مسکے اور ترلے، چلتا جا رہا ہوں کہ پھپھو نے دروازہ کھولا (چھٹیوں کی وجہ سے پھپھو آئی ہوئی ہیں) ہاتھ آگے بڑھا کر آٹا میرے تھیلے میں ڈالنا چاہا۔

فقیرانہ آئے صدا کر چلے

وہ تو بھلا ہو چھوٹے بھائی کا جو بائیک دھونے کے لیے پانی کا پائپ لگا رہا تھا، شرارتاً  میرے اوپر پانی پھینکا اور میری دوسری آنکھ بھی کھولی۔ ابو نے زبردستی پکڑ کر مجھے آئینہ دکھایا اور موبائل سے میری فلٹر شدہ تصویریں نکالیں اور کہا بیٹا کرپشن صرف سیاستدان ہی نہیں کرتے۔ میری یہ حالت دیکھ کر گھر والے ہاتھ اٹھا کر با جماعت دعا کرنے لگے  کہ اے خالق ارض و سماء اپنی مخلوق پر رحم فرما اس کرونا وبا سے نجات دے اور ہمارے بچے کو پہلے والی حالت پہ بحال کر دے۔ آمین

Advertisements
julia rana solicitors london

گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے

Facebook Comments

ڈاکٹر حافظ عثمان اسد
ڈاکٹر حافظ عثمان اسد (فزیوتھراپسٹ)۔ لیکچرر یونیورسٹی آف لاہور۔ غلطی کر کے سیکھنے کی کوشش میں مصروف

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply