کینسر (69) ۔ تین خیال/وہاراامباکر

آرتھر کورنبرگ نے ایک بار مذاق کرتے ہوئے کہا تھا کہ جدید بائیولوجی ابتدائی دنوں میں اکثر بار ویسے کام کرتی تھی، جیسے کہانی کا ایک شخص جو اپنی چابیاں سٹریٹ لائٹ کے نیچے تیز روشنی میں اس لئے تلاش کر رہا تھا کہ جہاں وہ گم ہوئیں تھیں، وہاں پر اندھیرا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

تجربات کرنا مشکل تھا اور نتائج اخذ کرنا اس سے دشوار۔ تجربات کے لئے سادہ ترین جاندار چنے جاتے تھے۔ سمندری ارچن، پھلوں کی مکھیاں، بیکٹیریا، سلائم مولڈ۔ یہ اس لئے کہ یہاں پر دیکھا آسانی سے جا سکتا تھا۔
کینسر بائیولوجی میں پیٹن روس کا دریافت کردہ وائرس سٹریٹ لائٹ کے نیچے ایسا ہی روشنی والا مقام تھا۔ یہ ایک نایاب وائرس تھا جو مرغیوں کی ایک نوع میں ایک نایاب کینسر پیدا کرتا تھا۔ لیکن کسی زندہ جاندار میں اصل کینسر پیدا کرنے کا سب سے قابلِ اعتبار طریقہ تھا۔ کینسر محققین کو علم تھا کہ ایکسرے، کالک، سگریٹ اور ایسبسٹوس کینسر کے رِسک فیکٹر تھے۔ انہوں نے یہ بھی سنا تھا کہ برازیل میں آنکھ کا کینسر فیملی میں منتقل ہوا تھا۔ لیکن کینسر پر تجرباتی سیٹنگ میں تجربہ کرنے کا کام روس وائرس کے ساتھ ہی کیا جا سکتا تھا۔ اس لئے یہی مرکزی سٹیج پر تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور فیکٹر پیٹن روس کی طاقتور شخصیت تھی۔ اپنی بات فصاحت سے بیان کرنے والے، بے لچک، جارحانہ مزاج اور بذلہ سنج۔ روس کو وائرس تھیوری سے جذباتی وابستگی تھی اور اس کے سوا کچھ ماننے کو تیار نہیں تھے۔ روس تسلیم کرتے تھے کہ بیرونی کارسنوجن کا کینسر سے تعلق دکھایا جا چکا ہے (جیسا کہ سگریٹ اور کینسر کا) لیکن ساتھ یہ کہتے تھے کہ بیرونی عوامل کی تھیوری کوئی میکانیکی وضاحت نہیں کرتی۔ وائرس واحد جواب ہیں۔
کینسر محققین کے 1950 کی دہائی میں تین گروپ تھے۔ وائرولوجسٹ، جن کا دعویٰ تھا کہ وائرس کینسر کی وجہ ہیں۔ اس تھیوری کے ساتھ مسئلہ تھا کہ انسانوں میں کوئی بھی ایسا وائرس نہیں ملا تھا۔
دوسرا گروپ ایپیڈیمولوجسٹ کا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ بیرونی کیمیکل کینسر کا سبب ہیں۔ ان کا مسئلہ تھا کہ ان کی تھیوری یا نتائج کی کوئی میکانیکی وضاحت نہیں تھی۔
تیسرا کیمپ تھیوڈور بویری کے خیال کی بنیاد پر تھا۔ اور یہ مین سٹریم سائنس سے سب سے زیادہ دور تھا۔ ان کے پاس کمزور واقعاتی شواہد تھے کہ خلیے کے اندر کی جین کینسر کا موجب ہو سکتی ہیں۔ لیکن نہ ہی ان کے پاس ایپیڈیمولوجسٹ کی طرح انسانی کینسر کا طاقتور ڈیٹا تھا۔ اور نہ ہی وائرولوجسٹ کی طرح کسی بھی طرح کی تجرباتی بصیرت۔
بڑی سائنس بڑے تضادات سے پھوٹتی ہے اور یہ کینسر بائیولوجی میں پایا جانے والا مرکزی شگاف تھا۔ کیا کینسر انفیکشن والے ایجنٹ سے ہوتا ہے؟ کیا یہ بیرونی کیمیکل سے ہوتا ہے؟ یا یہ اندرونی جین سے؟ آخر ایسا کیوں کہ سائنسدانوں کے یہ تین گروپ کینسر کے ہاتھی کو ٹٹول رہے تھے اور اس کے بارے میں اس قدر مختلف رائے رکھتے تھے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیلے فورنیا میں ریناٹو ڈلبیکو کی لیبارٹری میں نوجوان وائرولوجسٹ ہوورڈ ٹیمن ایک عجیب تجربہ کرنے لگے تھے، جس میں ناکامی یقینی لگتی تھی۔
آر ایس وی وائرس صرف زندہ مرغیوں میں ٹیومر پیدا کرتا تھا۔ جبکہ ٹیمن یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ وائرس عام خلیات کو کینسرزدہ کرتا کس طریقے سے ہے۔ اس کے لئے انہیں بہت سادہ سسٹم درکار تھا جس میں مرغیاں اور ٹیومر نہ ہوں اور یہ ڈِش پر بیکٹیریا کی طرح کا ہو۔ کیا لیبارٹری کی ڈش میں کینسر لایا جا سکتا ہے؟ اور سات سالوں کے بعد ٹیمن کو 1958 میں کامیابی مل گئی۔ عام خلیات پر آر ایس وی وائرس کی تہہ کا اضافہ کیا۔ اس نے خلیات کو انفیکٹ کر دیا اور یہ باقابو طریقے سے بڑھنے لگے۔ ٹیمن کے تصور میں اب ان کے پاس کینسر اپنی سادہ ترین شکل میں تھا۔ اور ان کا خیال تھا کہ خلیے اور وائرس کے آپسی انٹرایکشن کو سمجھنے کا مطلب کینسر کو سمجھ لینا ہو گا۔ کینسر کا بھوت جاندار سے نکل کر لیبارٹری کی ڈش میں آ گیا تھا۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply