• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • دنیا بھر کا یوم خواتین بمقابلہ پاکستانی یوم خواتین۔۔ماریہ خان خٹک

دنیا بھر کا یوم خواتین بمقابلہ پاکستانی یوم خواتین۔۔ماریہ خان خٹک

فضول سے جملے کی وجہ سے لکھنے کو دل ہی نہیں کررہا لیکن کچھ باتیں دل میں رکھ کر بوجھ بڑھانے سے بہتر اُنہیں کہہ دینا ہوتا ہے۔

خواتین کا عالمی دن ساری دنیا میں منایا جاتا ہے تو اگر اس دن کوئی  غیر مسلم مرد اپنی لیڈی کو خوش کرنے کیلئے یا انہیں اس بات کا احساس دلانے کیلئے وہ بطور عورت بہن ، بیوی ،ماں، بیٹی یا گرل فرینڈ اس کیلئے اہم ہے تو میں نہیں سمجھتی کہ یہ دن منانے میں کوئی  قباحت ہے۔ منائیں شوق سے منائیں ،کوئی  اعتراض نہیں ۔

مغربی حقیقی مظلوم عورت اگر اس دن خوش ہوتی ہے تو ہم بطور مسلمان اک بے ضرر مخلوق کی خوشی میں خوش ہیں ۔لیکن اب آتی ہے بات اک مسلمان عورت کی تو مسلمان عورت کو تو عورت کہا ہی اس لئے گیا ہے کہ وہ اہم ہے، خاص ہے، انمول ہے۔اسلام کے آنے کے بعد عورت کے کسی حق کو کوئی  چھین ہی نہیں سکتا ۔۔۔۔

بہت سے لوگ کہیں کہتے ہیں عورت پہ ظلم و جبر کیا جاتا ہے ۔ملازمتوں میں مردوں کے مساوی اجرتیں نہیں ملتیں ۔تیزاب سے جھلسائی  جاتی ہیں ۔ طلاق کا حق صرف مرد کو کیوں؟ معصوم کلیوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔۔۔تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس ملک میں اسلام  برائےنام نافذ ہے جب مکمل شریعت ہوگی تو نہ کبھی کسی عورت پہ ظلم ہوگا نہ مرد پہ جبر ہوگا ۔

عورت کو ملازمتیں کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے جب اس کی تمام ذمہ داری مرد پہ ہے البتہ اگر کرنا چاہے تو اپنا کاروبار حدود شریعت میں رہ کر کرسکتی ہے جہاں وہ ملازمہ نہیں ملازموں کی مالکہ ہوگی کوئی  پابندی نہیں ۔

رہی بات حق طلاق کی تو اگر  ذرا  دھیان سے ترجمے کے ساتھ قرآن پڑھیں تو خود دیکھیں کہ عورت کو مرد پسند نہیں یا کوئی  بھی وجہ ہے تو خلع لے سکتی ہے ۔ جہاں تیزاب گردی کے واقعات ہیں تو جب شرعی سزائیں نافذ ہونگی تو نہ تیزاب گردی ہوگی نہ  معصوم بچوں سے زیادتی ۔

سچ پوچھیں زیادتی تو مردوں کے ساتھ اس ملک میں ہورہی ہے۔

مردوں کو نکلنا چاہیے اپنے حقوق کے لئے ۔۔۔۔۔لیکن کیا کریں مرد ہیں نا بیچارے ۔۔۔۔نہ کھل کر اپنی حق تلفیوں کا اظہار کرسکتے ہیں نہ ہی گھر میں اپنے اوپر زوجہ کے ظلم ستم بیان کرسکتے ہیں مرد جو ہیں جتنا بھی ظلم برداشت کریں لیکن کبھی باہر کسی سے عورتوں کی طرح نہیں کہتے ۔

روکھی سوکھی خود کھاکر بیوی بچوں کو تر کھلاتے ہیں ۔خود سارے سال کی غمی خوشی سردی گرمی ایک ہی سوٹ کو استری کرکے گزاردینگے لیکن بیوی بچوں کے سردی گرمی شادیوں وغیرہ میں نئے کپڑے ضرور مہیا کرینگے۔ ملازمتیں کرتے ہیں ۔دوسروں کی جھڑکیاں کھاتے ہیں۔ اور وہی پھر گھر آکر بیوی کی باتیں بھی سنتے ہیں ۔اور تو اور بچے بھی اسی سے سوال کرتے ہیں کہ اس نے کیا ہی کیا ہے ان کیلئے ۔۔۔

یاد رہے ہمارے ملک میں حقوق اسلام نے پورے دیے ہیں لیکن جمہوریت نے سلب کرلئے ہیں ۔

اور سچ پوچھیں یہ جو مخصوص نعرہ چند خواتین لگارہی ہیں مجھے اس کے الفاظ لکھنا بھی گوارا نہیں چہ جائیکہ ان چند لٹی پٹی عورتوں کو اہمیت دوں ۔اور میں اس بات کے حق میں بھی نہیں ہوں کہ میری جماعت اسلامی یا جمیعت کی بہنیں ان  عورتوں کے مقابلے میں سڑک پہ نکل کر جائز حقوق کے مطالبات کریں ۔

جائز حقوق آپ کو کس سے چاہئیں؟ جب کہ آپ کے اللہ نے آپ کے محرموں کو پابند کیا ہے آپ کی حفاظت، طعام و قیام کی فکر کا۔۔تو سڑکوں پر نکل کر جائز حقوق بھی کس سے اور کیوں مانگے جائیں بھکاریوں کی طرح ۔اس کیلئے ایسے بیٹے پیدا کریں جو شریعت سے متصادم ہر قانون کو رد کریں۔ اور وہی بیٹے بھائی  بن کر ، خاوند بن کر باپ بن کر اپنے گھر کی ہر عورت کو وہی حقوق دینگے جو اسلام نے دیے ہیں۔

پاکستان کے یوم خواتین اور دنیا بھر کے یوم خواتین میں یہی فرق ہے کہ دنیا بھر کے مرد یہ دن مناتے ہیں اس دن اپنی عورت کو باور کرواتے ہیں کہ تم میرے لئے خاص ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors

جبکہ پاکستان میں سب الٹ ہے یہاں کی مغربی وائرس زدہ خواتین سے وہ اہمیت وہ مان وہ عزت سنبھالا نہیں جارہا  جو اللہ نے اسلام کی برکت سے انہیں عطا فرمایا ہے اور وہ چلی ہیں اسلام کے خلاف اعلانِ  جنگ کرنے۔

Facebook Comments

ماریہ خان خٹک
میرا نام ماریہ خان ہے خٹک برادری سے تعلق ہے ۔کراچی کی رہائشی ہوں ۔تعلیم ،بچپن اور دوستوں کے ساتھ سندھ کی گلیوں میں دوڑتی رہی ہوں ۔ کتابوں کے عشق اور مطالعے کی راہداری کو عبور کرنے کی چاہ میں خود قلم اٹھانے کی لگن ہے ۔طالب دعا ہوں اللہ تعالی قلم کا حق ادا کرنے کی توفیق دے ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply