آزادی۔۔سدرہ سندھو

آآ آ۔۔عورت اور آزادی
ہیں؟
آخر کیسی آزادی؟
سانس لینے کی آزادی ہے تو
سوال کرنے کی آزادی کس لیے؟؟
ناشکری عورتیں۔۔ بھول گئیں؟۔ایک وقت تھا یہ روتی دھوتی کمزور سی مخلوق زندہ درگور کی جاتی تھی
اب دیکھو ذرا انہیں،کتنا شور کرتی ہے یہ مخلوق،کتنے سوال ہیں اس کے پاس
یہ آدھی کھوپڑی،بھلا کیا کرے گی یہ جان کر کہ اس کے  پیدا ہونے پر
تمھارے چہرے سیاہ کیوں پڑ جاتے ہیں

Advertisements
julia rana solicitors

بھائی۔۔ پیارے بھائی ! محا فظ
فرق ہی کیا پڑتا ہے
اگر دیساں دے راجے, بابل دے پیارے
بھائی  کے لیے
یہ بے وقعت, حقیر مخلوق
ونی ہو جائے  تو
اور شوہر
وہ تو ہوتا ہی سر کا سائیں ہے
کیا ہوا وہ تمھیں پاؤں کی جوتی سمجھتا ہے تو
کیا ہوا اگر گدھوں کی طرح کام لیتا ہے تو
کم عقل, بے وقوف مخلوق
وہ تو با ہر سے تھک ہار کر آتا ہے
وہ تمھاری تھوڑی سی مدد کر دے ؟؟
توبہ!
ایسا خناس کون بھرتا ہے تمھارے دماغ میں
یہ فیمنیسٹ “گشتیاں”
گھر خراب کر دیں گی تمھارا
ارے کیا ہوا اگر تمھارا
جذباتی اور جسمانی استحصال ہوتا ہے تو
آخر تمہیں جینے کا حق دیا ہی کیوں گیا تھا؟ تاکہ تم ایسے نا مناسب سوال کرو؟
تم ہوتی ہی کون ہو؟
“میرا جسم میری مرضی”
کا غلیظ سلوگن اٹھانے والی
یہ ” حرافائیں”
جا نتی نہیں کہ ایسے حق
زندہ رہنے کا حق, تعلیم اور شعور کا حق
وراثت کا حق
رشتے سے انکار کا حق
نہیں پسند تو طلاق کا حق
اللہ اور اس کے نبی نے ہمیں دیا تھا
اس مردودوں کےمعاشرے نے نہیں
یہ کلیاں مسلتے
کف اڑاتے.،گالیاں بکتے”مجاہد مرد”
ان “باغیرت” مردوں کو
ایسی آزادی مانگنے کی “فحاشی” نہیں پسند
باز آ جاؤ ورنہ جان سے جاؤ  گی
یا تیزاب سے جلا دی جاؤ گی
یہ چسکے لیتے مجاہد اور ان کی ہمنوا
یہ اخلاقیات سے بانجھ “مہذب معاشرہ”
مدرسے کے بچوں کا شکاری
ہر کمزور کی ہڈیاں بھنبھوڑتا “محافظ طبقہ”
اس کی” نفیس طبیعت” پر گراں گزرتی ہیں  ایسی با تیں
باز آ جاؤ
یہ چسکے لیتی مخلوق
کسی اور کی “قندیل” سے
آنکھیں سینکنی ہیں۔۔
اپنے گھروں میں انہیں بس سانس لیتی ،گھر کے کام کرتی “ہاں جی” اچھا جی” کرتی  زندہ لاشیں درکار ہیں!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply