بٹوارہ اور مسلمانوں کی تقسیم،اِک مطالعہ۔۔۔نوید شریف

کہا جاتا ہے مسلم لیگ نے پاکستان بنا کر برصغیر کے آدھے مسلمانوں کو پیچھے ہندوستان میں چھوڑ دیا ۔ یہ بات اعداد و شمار اور سیاسی تاریخی کے حساب سے بالکل جھوٹ ہے ۔

سب سے پہلے بات کرتے ہیں اعداد و شمار کی ۔

اس وقت پاکستان کی آبادی 22 کروڑ, بنگلادیش کی آبادی 18 کروڑ اور ہندوستان میں موجود مسلمانوں کی آبادی 20 کروڑ کے لگ بھگ ہے ۔ یعنی برصغیر میں مسلمانوں کی کُل آبادی 60 کروڑ ہے جس میں سے (%50) یا آدھے نہیں بلکہ %32 اس وقت بھی ہندوستان میں آباد ہیں۔

مگر دوسرا سوال جس کا تعلق سیاسی تاریخ سے ہے، اس کا جواب جاننا بے حد ضروری ہے ۔ کیا مسلم لیگ نے ان %30 کو پیچھے چھوڑنے کا پہلے ہی سے کوئی ارادہ کیا ہو اتھا ؟

بالکل نہیں ۔۔مسلم لیگ نے جس برطانوی 3 جیون پلان کو تسلیم کیا تھا اسکے مطابق اگر شاہی ریاستوں کو مکمل آزادی سے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے دیا جاتا تو جموں اور کشمیر پاکستان میں شامل ہوتا اور حیدآباد دکن اور اسکے گردونواح میں موجود چھوٹی مسلم جاگیریں بھی آزاد رہتی ۔ اس طرح ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کی تعداد %30 کی تعداد کم ہو کر %20 رہ جاتی۔

اس کے ساتھ ساتھ پھر اگر باؤنڈری کمیشن بنگال اور پنجاب میں 1941 کی مردم شماری کے عین مطابق حد بندی کرتی تو یہ تعداد مزید کم ہو کر %15 رہ جاتی ۔

مگر ان اعداد و شمار کے ساتھ تحریک آزادی کی سیاسی تاریخ کو بھی سمجھنا ضروری ہے کہ کیوں کر %32 مسلمان آج ہندوستان میں محصور ہیں ۔

1938-40 کانگریسی حکومت کے بعد مسلم لیگ نے 1940 میں ایک قرارداد کے ساتھ پاکستان کاحصول اپنا مقصد بنا لیا ۔ یعنی مسلم لیگ نے ہندوستان کا بٹوارہ طے کر لیا ۔ جس کی بنیاد دو قومی نظریے پر تھی ۔ مگر جیسے ہی مسلم لیگ نے اپنے مقاصد کیلئے جدو جہد شروع کی اسے سب سے زیادہ مزاحمت کا سامنا انگریزوں اور ہندوؤں کے بجاۓ مسلمان سے کرنا پڑا ۔

مسلم لیگ کی پاکستان بارے تحریک کے جواب میں مخالف مسلم جماعتوں نے آل انڈیا آزاد مسلم کانفرنس قائم کی جو در اصل بارہ مسلم جماعتوں کا اتحاد تھا جن کا مقصد ہندوستان کے بٹوارے کو روکنا تھا ۔۔ان میں جمعیت علمائے ہند ، مجلس احرار الاسلام ، آل انڈیا مومن کانفرنس ، آل انڈیا شیعہ پولیٹیکل کانفرنس ، خدائی خدمتگار ، کرشک پرجا پارٹی ، انجمن ہم وطنو بلوچستان ، آل انڈیا مسلم مجلس ، اور جمعیت اہلحدیث قابل ذکر جماعتیں تھیں۔

آزاد کانفرنس نے 23 مارچ 1940 کے مسلم لیگ کی قرارداد لاہور کے جواب میں فوری طور پر 19 اپریل 1940 کو “یوم ہندوستان” منایا اور اسی دن پہلی دفعہ مسلم لیگ کی طرف سے نام دی گئی “قرارداد لاہور” کو بطور تضحیک ” قرارداد پاکستان مردہ باد” کے نعرے بھی لگواۓ ۔ جس کے بعد مسلم لیگ نے بھی اسے قرارداد پاکستان کہنا شروع کر دیا ۔

آپ شاید سوچ رہے ہوں گے اس تنظیم کا نام اس سے پہلے کیوں نہیں سنا ۔ اس کی وجہ شاید تاریخ کی وہ ترتیب ہے جہاں صرف جیتنے والوں کو یاد رکھا جاتا مگر 1940 سے 1947کے  درمیان آزاد کانفرنس اپنے مدِمقابل مسلم لیگ کہیں  زیادہ متحرک تھی ۔ بمبئی کرونیکل نے 18 اپریل 1946 میں لکھا گیا کہ “مسلم نیشنلسٹ پارٹیوں کے اجلاس مسلم لیگ کے اجلاس میں پانچ گنا زیادہ منعقد ہوا کرتے ہیں ”

اس تحریک کے اس قدر متحرک ہونے کی وجہ آپ پر واضح ہوگی جب آپ ان جماعتوں کے رہنماؤں پر ایک نظر ڈالیں گے ۔ جن میں ابوالکلام آزاد ,عبد المطلب مظومدار,عبد الصمد خان اچکزئی ,اللہ بخش سومرو,فخرالدین علی احمد ,فضل حسین,عنایت اللہ خان مشرقی ,خان عبدالغفار خان,خان عبد الجبار خان ,مغفور احمد اعجازی ,ملک خضر حیات ٹوانہ ,مولانا عطا اللہ شاہ بخاری,مولانا سید حسین احمد مدنی ,مولانا ابوالاعلیٰ مودودی,مختار احمد انصاری ,رفیع احمد کدوائی ,شوکت اللہ شاہ انصاری ,شیخ عبداللہ اور عبید اللہ سندھی جیسی نامور شخصیات شامل تھیں۔ یعنی مسلمانوں کی تمام تر تنظیمی قوت مسلمانوں کے ہی خلاف استعمال ہو رہی تھی ۔

یعنی اس وقت جب مسلم لیگ اور جناح ہندوستانی مسلمانوں کے مستقبل کی جنگ لڑ رہے تھے ان تمام مذہبی جماعتوں اور شخصیات نے بجاۓ جناح کے ہاتھ مضبوط کرنے کے الٹا ہندو کانگریس کا ساتھ دیا ۔ یہ خاموش بھی رہ سکتے تھے،مگر کیونکہ تاریخ میں  انکے لیے “کانگریسی مُلّا” کا نام لکھا جانا تھا انھوں نے جناح اور مسلم لیگ کو بھرپور طریقے سے کمزور کیا ۔ لہذا جب انگریزوں اور کانگریس نے دستخط شدہ 3 جون پلان سے انحراف کرتے ہوۓ شاہی ریاستوں کو بزور قوت ہندوستان میں شامل کرنا شروع کر دیا تو یہ سب لوگ تماشائی بن گئے اور جناح اکیلا ہندوؤں اور انگریزوں سے لڑتا رہا اور بچا کچا ملک ملا، اسے جوڑنے اور بچانے میں لگ گیا ۔

مگر اس وقت ان ملاؤں کو نہ اسلام یاد آیا ،نہ  مسلمان، انھوں نے شریعت کے بر خلاف مسلمانوں کی جماعت کے خلاف کفار کا ساتھ دیا۔شریعت کا جواب تو انھوں نے اپنی طرف سے جناح کو کفر کے فتوے لگا کردے رکھا تھا مگر پتا نہیں نہرو اور ماؤنٹ بیٹن میں انکو کون سا ولی اللّٰہ نظر آتا تھا وہی جانتے تھے۔
انھوں نے جو  اپنی قبر میں بھرا وہ تو انکے ساتھ چلا گیا مگر آج انہی کی نسل ہندوستان میں تباہ حال ہے ،چاہے وہ کشمیر کے شیخ عبداللہ کی اولاد ہو یا آگرہ  ابوالکلام آزاد کی اولاد ۔ لہذا جو کچھ ہندوستان میں مسلمانوں کا حال ہو رہا ہے اسکے ذمہ داروہی کانگریسی مُلّا ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس سب میں پاکستان کا قصور اتنا ہے کہ 72 سال بعد ہمیں اس قابل ہونا چاہیے تھا کہ اگر ہندوستان میں مسلمانوں کو  کوئی خطرہ لاحق ہوتا ہے تو ہم ہندوستان کو معاشی ،سیاسی اور فوجی لحاظ سے یہ احساس دلاسکتے ہوتے کہ اس کے لیے یہ مہنگا سودا ہے۔ مگر ابوالکلام آزاد کے جگری یار نہرو کی بدولت کشمیر کا ایسا مسئلہ بنا رہا کہ ریاست پاکستان کی ترقی اور خوشحالی جنگوں اور مہم جوئی میں صَرف ہو گئی ۔ ساتھ ہی ساتھ آج انہی کانگریسی ملاؤں کی اولاد پاکستان میں اب بھی اس ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے میں مصروف ہے۔جناح نے ہندوستان کے مسلمانوں کے ایک وفد کو جو مشورہ آنے والے وقت اور حالات کے بارے میں 31 دسمبر 1947 میں دیا تھا، میں آخر میں وہی دہراؤں گا کہ “ہندوستانی مسلمانوں کو نئۓ انڈیا میں مسلم لیگ کو ختم کرنے کو کہا جاۓ گا ابوالکلام اور اسکے ساتھی تمھیں کہیں گے یہ اب غیر موثر پلیٹ فارم ہے ۔ تم انکی باتوں میں نہ آنا اور اپنے آپ کو کانگریس میں ضم کرنے کی غلطی نہ کر بیٹھنا ۔اپنی متوازن لیڈر شپ قائم رکھو تبھی تم اپنے حقوق کی حفاظت کر سکو گے ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply