امریکہ طالبان معاہدہ یا شاخِ نازک پہ آشیانہ؟۔۔سلطان محمود

کچھ لوگ امریکہ طالبان معاہدے کو نا صرف امن کی ضمانت قرار دے رہے ہیں بلکہ اس پرائی شادی میں عبداللہ دیوانے کے لئے نوبیل پرائز کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں (جبکہ نوبیل پرائز سے انکی واقفیت کا یہ عالم ہے کہ اسے ہمیشہ “نوبل پرائز” ہی لکھتے اور پڑھتے ہیں کہ چلو، اتنا بڑا انعام ہے تو کسی “شریف” یعنی نوبل آدمی کے نام پر ہی ہوگا۔)

کچھ لوگ اسے افغانستان کو مزید کمزور کرنے کی سازش کے طور پر بھی دیکھ رہے ہیں۔ افغان صدر اشرف غنی نے یہ بیان دے کر کہ طالبان قیدیوں کو رہا کرنے کا اختیار صرف افغان حکومت کے پاس ہے نا کہ امریکہ کے پاس، افغانستان کی حاکمیت اعلیٰ اور استقلال کا اعلان کردیا ہے۔ اسی اعلان کی وجہ سے کچھ نیوز چینلز افغان صدر پر امن معاہدہ سبوتاژ کرنے کا الزام بھی لگا رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ افغان صدر پہلے ہی طالبان کو اسلحہ چھوڑ کر قومی دھارے میں شامل ہونے کی دعوت دے چکے ہیں۔ ماضی کے مجاہدین پہلے ہی موجودہ حکومت کا حصہ ہیں۔ ایسے میں افغانستان میں امن کے حوالے سے صدر اشرف غنی کی نیت پر شک کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ البتہ یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ اس سارے عمل میں موجودہ افغان حکومت کو کیوں شامل نہیں کیا گیا؟ کیا امریکہ یا کسی بھی عالمی طاقت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ افغانستان کی ایک منتخب جمہوری حکومت کو، جسے اقتدار دلانے کے عمل کو خود انہوں نے سپورٹ کیا ہو، نظرانداز کرکے نان سٹیٹ ایکٹرز کے ساتھ بالا بالا کوئی معاہدہ تشکیل دے سکیں۔ اور اگر ایسا کوئی معاہدہ ہوتا بھی ہے تو موجودہ افغان حکومت پر اس کی پابندی کرنے کی اخلاقی لحاظ سے کتنی ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟
افغانستان میں خانہ جنگی کی صورت میں کیا افغان اپنے شہیدوں کی فہرست میں ایک اور ڈاکٹر نجیب کا اضافہ کرنا پسند کریں گے یا زندہ اشرف غنی کو ملک کی خدمت کرنے کا موقع دیں گے؟

طالبان قیدیوں کے حوالے سے افغان صدر کے بیان کو، جو ہر لحاظ سے ان کا حق ہے، بنیاد بنا کر انہیں معاہدے کی ناکامی کا ذمہ دار قرار دینے والے کس کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں؟

احسان اللہ احسان کا فرار/ مبینہ رہائی بھی کہیں اسی ڈیل کا حصہ تو نہیں تھا؟

اس سارے پس منظر میں مولانا فضل الرحمن، جو ہمیشہ افغانستان کے معاملے میں اسٹیک ہولڈر رہے ہیں، کیوں خاموش ہیں؟ کہیں انھیں مولانا سمیع الحق جیسے انجام سے ڈرایا تو نہیں گیا ہے؟

چھوڑیں، آج کے اخبار سے ایک دو خبریں پڑھتے ہیں:

“مولانا فضل الرحمن پر خودکش حملے کا خطرہ۔ انہیں پرائیویٹ سکیورٹی رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے”
روزنامہ مشرق پشاور، ۲ مارچ

دوسری خبر سوشل میڈیا سے:

گومل یونیورسٹی کے ڈین شعبہ اسلامیات پروفیسر صلاح الدین (جن کی مولانا فضل الرحمن کے ساتھ ایک تصویر بھی وائرل ہوئی ہے) طالبات کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزام میں گرفتار۔ (واضح رہے کہ پروفیسر صلاح الدین کے آفس پر یہ چھاپہ اے آر وائی چینل کی سرِ عام ٹیم نے مارا ہے)

دونوں خبروں کا نتیجہ/خلاصہ:

Advertisements
julia rana solicitors

مولانا اپنے کام سے کام رکھیں اور افغانستان کے مسئلے پر اپنی کوئی لائن لینے کی کوشش نہ کریں۔ اعلان سماپت ہوا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply