یہ قوم کب سدھرے گی۔۔ عاشق علی بخاری

کورونا وائرس چین کے شہر ووہان سے شروع ہوکر پوری دنیا میں تہلکہ مچائے ہوئے ہے، خوف و ہراس کی عجیب و غریب کیفیت بنی ہوئی ہے، حکومتیں، عوام ہر ایک فکرمند و پریشان ہونے کے ساتھ ساتھ احتیاطی تدبیریں اختیار کر رہے ہیں لیکن جیسے ہی کورونا کے کیس پاکستان میں ظاہر ہوئے، میڈیا نے خوف کی ایک ایسی لہر عوام میں امپورٹ کی ہے، گویا آپ ابھی مرنے والے ہیں۔
جب کہ میڈیا کو چاہیے تھا فوراً طبی ماہرین سے رابطہ کرکے عوام کو احتیاطی تدابیر اور اس سے بچنے کے اسباب بتائے جاتے لیکن میڈیا کو تو بس بریکنگ نیوز چاہیے۔
یہ تو رہا میڈیا کا کردار ،لیکن قوم کے ایک فرد کی حیثیت سے عوام کا حال دیکھیں، جھوٹی خبریں مسلسل سوشل میڈیا پہ شیئر کی جارہی ہیں، کورونا کے کیس کو ہارر موویز کی طرح پیش کیا جارہا ہے یا پھر شاید قارون کا گمشدہ خزانہ، یا برمودا ٹرائی اینگل میں لاپتہ جہاز برآمد ہورہے ہوں،عجیب و غریب ٹوٹکے لوگوں کو بتائے جارہے ہیں، گویا ارسطو کا نایاب نسخہ پاکستانی قوم کے ہاتھ لگ گیا ہو، چند لوگ پوری قوم کو دنیا کے سامنے بے وقوف ظاہر کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
توہم پرستی میں مبتلا قوم کو مزید اوہام کا شکار کیا جارہا ہے، تاجروں کی تو جیسے لاٹری ہی نکل آئی ہو، ادویات، ماسک انتہائی مہنگی قیمت میں بیچے جارہے ہیں، ذخیرہ اندوزی کی جارہی ہے تاکہ چیزوں کی شارٹیج کا بہانہ بناکر مال بٹوراجائے۔
ہم بطورِ قوم کب سنجیدہ ہونگے؟
ہم کب اپنے آپ کو حقیقی امت مسلمہ بنائیں گے؟
ہم کونسی آزمائش آنے کا انتظار کررہے ہیں؟
ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تو یہ اسوہ نہیں ہے، ہمارے پیارے دین کی تعلیمات تو توکل، صبر اور اللہ کی رضا پہ راضی رہنا سکھاتی ہیں، ہمارا دین تو ہمیں بتاتا ہے کہ یہ آزمائشیں تمہارے درجات بلند کرنے کا سبب ہیں، ہمارا اسلام تو ہمیں سکھاتا ہے کہ اگر آزمائشیں آجائیں تو اپنے اعمال کا جائزہ لو، کہیں تم اپنے رب کو ناراض تو نہیں کررہے؟
اس صورتحال میں ہمیں درج ذیل کام فی الفور کرنے چاہئیں۔
1:اللہ سے اس آنے والی مصیبت سے پناہ مانگیں۔
2:اپنے گناہوں کی معافی مانگیں۔
3:جس جس نے اس بیماری کو ایک مذاق بناکر پیش کیا یا اس کا حصہ بنا ہے، فوراً تنہائی کے وقت اللہ سے رو رو کر معافی مانگے۔
4:اپنا احتساب کریں۔
5: وہم کا شکار نہ ہوں، اللہ کے حکم کے بغیر کوئی چیز نقصان نہیں دے سکتی۔
6ام: اگر موت نے آنا ہے تو وہ نہ غریبی دیکھتی ہے نہ امیری، نہ محلات دیکھتی ہے، اور نہ جھونپڑیاں وہ بس آجاتی ہے۔
7:موت تو مومن کے لیے رب سے ملاقات کا ذریعہ ہے، اس لیے تیاری کرنی چاہیے کہ میں رب کو ملنے جارہا ہوں تو میری تیاری کیسی ہے؟
8:صبح و شام کی دعائیں روزانہ کا معمول بنالیں۔
9:ایرے غیرے لوگوں کی باتوں پر کان نہ دھریں، ماہرین کی بتائی ہوئی باتوں پر عمل کریں۔
10:اگر پھر بھی آپ بیمار ہوجاتے ہیں تو اللہ پر توکل اور اپنی بیماری پر اجر کی امید رکھیں۔
ایک مومن ہمیشہ مثبت سوچتا، مثبت سوچ کو آگے پھیلانے کا سبب بنتا ہے، نا کہ لوگوں کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھاتا ہے، ایک راستہ شیطان کا اور دوسرا رحمان کا ہے، اب یہ آپ کا اختیار ہے کہ کس کو اختیار کرتے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply