• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • اکیسویں صدی کا سوشلزم کیا ہے؟ ۔ دیمترس کاریگانس، پاویل بلانکو/ترجمہ:شاداب مرتضیٰ(دوسری قسط)۔

اکیسویں صدی کا سوشلزم کیا ہے؟ ۔ دیمترس کاریگانس، پاویل بلانکو/ترجمہ:شاداب مرتضیٰ(دوسری قسط)۔

نیا،نظریہ “پرانا” ہے:

آئیے اس “نئے نظریے” کا جائزہ لیں جسے “اکیسویں صدی کا سوشلزم” کہا جاتا ہے اور جسے غیرحادثاتی طورپرسرمایہ دارانہ نظام سے سمجھوتہ کرنے والی کئی اصلاح پرست اورموقع پرست سیاسی قوتوں نے، مثلاً یورپین لیفٹ پارٹی نے، اختیار کرلیا ہے۔ “اکیسویں صدی کےسوشلزم” کے اس نام نہاد نظریے کی تشہیر 1996 میں ایک جرمن سوشیالوجسٹ “ہانس ڈائٹرچ اسٹیفان” نے کی تھی جو 1977 سے میکسیکو میں رہائش پذیر تھا اوروہیں درس و تدریس سے وابستہ تھا۔ وہ وینزویلا کے صدر یوگو شاویز کے مشیر کے طورپربھی کام کرچکا ہے۔

یہ نظریہ سوشلسٹ ملکوں میں اقتدارکا تختہ الٹے جانے کے بعد تیار کیا گیا۔ یہ اس من گھڑت مفروضے پرمبنی ہے کہ “سرمایہ داری اورحقیقی سوشلزم نے جمہوریت کے بڑے خسارے کو پیدا کیا ہے اوریہ انسانیت کے ان فوری مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں جیسے کہ غربت، بھوک، استحصال، معاشی جبر، سیکس ازم، نسل پرستی، قدرتی وسائل کی تباہی اورحقیقی شراکتی جمہوریت کی کمی”۔استحصالی نظام (سرمایہ داری) اور سوشلزم کی تعمیر جس نے انسانیت کے لیے عظیم کامیابیاں حاصل کیں اور انسان کے ہاتھوں انسان کے استحصال کے بغیر سماج کے قیام کے لیے راستہ ہموار کیا ،ان دونوں کو اکٹھا کر کے ڈائٹرچ اوراس کا نظریہ بیسویں صدی میں سوشلزم کی کامیابیوں کو مکمل طور پر مسترد کردیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ “سرمایہ داری اورتاریخی مزدورطبقے کا سماجی پروگرام” ناکام ہوچکا ہے اوراس بات پرزوردیتا ہے کہ “اب وقت آگیا ہے کہ مابعدِ سرمایہ دار عالمی سماج کی جانب پیش قدمی کے لیے ، عمومی لبرل جمہوریت کے لیے، حکمران طبقے کے کلچر پوقابو پایا جائے”۔

یہ بھی پڑھیں : اکیسویں صدی کا سوشلزم کیا ہے؟ ۔۔دیمترس کاریگانس، پاویل بلانکو/ترجمہ: شاداب مرتضی(قسط 1)

یہ جعلسازی “اکیسویں صدی کے سوشلزم” کے طورپرپیش کی جاتی ہے۔ ڈائٹرچ کا دعویٰ ہے کہ یہ “مرکب معیشت پر(سرمایہ داری اورسوشلزم کا مرکب)، ملکیت کی متنوع شکلوں پر (سماجی، کوآپریٹو اورنجی ملکیت پر)” مشتمل ہوگا، جس میں ، فرضی طورپر، سماجی ملکیت کو ترجیح دی جائے گی اوراس کی بنیاد “محنت کی قدر کے مارکسی نظریے پرمبنی ہوگی جبکہ مارکیٹ اکنامی کے اصولوں کے برعکس، پیداواری اجناس انہیں پیدا کرنے والوں میں جمہوری طریقے سے تقسیم کی جائیں گی”۔

یہ بالکل واضح ہے کہ یہ نظریہ یوٹوپیائی اور من گھڑت ہے کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ ایک ایسے سماج میں جہاں منافع خوری کے لیے ذرائع پیداوارپرنجی ملکیت موجود ہوگی ، یعنی سرمایہ دارانہ کاروبار موجود ہوگا، وہاں سماجی ترجیحات کا وجود نہیں ہوسکتا۔ اپنے من گھڑت خیال کو زیادہ پراثربنانے کے لیے ڈائٹرچ یہ دعوی بھی کرتا ہے کہ “پبلک سیکٹرپرائیوٹ سیکٹر پرمغلوب ہوگا” یعنی ریاست میں مغلوب سماجی پیداوار نجی سرمائے کو مجبور کرے گی کہ وہ عوامی ترقی کے مفاد کے لیے خدمت انجام دے۔

وہ سوشلزم کی تعمیر میں مرکزی منصوبہ بندی کے لازمی عنصر کے معاملے سے بھی یہ کہہ کر آگے نکل جاتا ہے کہ موجودہ دورکی نئی ٹیکنالوجی کی صلاحیتیں اس مسئلے کو حل کردیں گی۔ یہ نظریہ موقع پرست اورخیالی تصورات کے “مسکوٹ” پرمشتمل ہے جن پر عملدرآمد ممکن نہیں کیونکہ مرکب سوشلزم یعنی مارکیٹ کے ساتھ سوشلزم وجود نہیں رکھ سکتا۔

تاہم، یہ نظریہ اتنا ہی پرانا ہے جتنی کہ مارکسزم میں کی جانے والی ابتدائی ترمیمیں۔ دراصل یہ سرمایہ داری نظام کی انتظام کاری کو ایک قسم کے سوشل ڈیموکریٹک “نقاب” پہنانے کی کوشش کا نتیجہ ہے۔ بہرحال، لاطینی امریکہ کے اوردوسرے ملکوں میں بھی جہاں سیاسی تجربہ کم ہے وہاں کے عوامی حلقوں پراس نظریے کا بہت اثر ہے۔ یہ اس خیال کا بھی پرچارکرتا ہے کہ نظریاتی غلبے کی ضرورت کے بغیروسیع پیمانے کے سیاسی اتحاد تشکیل دیے جاسکتے ہیں، گویا سیاسی پالیسی اورنظریے کو بڑی دیوار کے ساتھ ایک دوسرے سے جدا کیا جا سکتا ہے!

یہ بات سمجھنے کے لیے کہ یہ نظریہ دراصل سرمایہ دارانہ نظام کی سوشل ڈیموکریٹک انتظام کاری کی ایک قسم ہے یہ سمجھنا اہم ہے کہاس ” نئے نظریے” کے مطابق ذرائع پیداوار کی ملکیت کس کے پاس ہوگی، کہ طبقاتی نکتہِ نظر سے یہ “نیا نظریہ” کس کے مفادات کی خدمت کرتا ہے۔ “اکیسویں صدی کے سوشلزم” کے طورپرپیش کیے جانے والے اس موقع پرست نظریے میں اس بنیادی معاملے کو نظرانداز کردیا جاتا ہے کہ مزدورطبقے کے مفادات، عوامی امنگیں، سرمایہ دارطبقے کے مفادات کے خلاف ہیں اور”شراکتی اوراجتماعی جمہوریت” کے نام پر انہیں یکساں طورپرشناخت نہیں کیا جا سکتا, یہ نظریہ اس حقیقت کو فراموش کرتا ہے کہ طبقاتی جدوجہد ناقابلِ مصالحت ہے۔

کارل مارکس اورفریڈرک اینگلز کی اگر صرف دو تصنیفات “جرمن آئیڈیالوجی” اور “کمیونسٹ پارٹی کا منشور” کا ذکر کیا جائے تو ان میں “سچا سوشلزم”، “رجعتی سوشلزم (جاگیردارانہ، پیٹی بورژوا سوشلزم)”، “رجعتی یا سرمایہ دارانہ سوشلزم” اور”تنقیدی –یوٹوپیائی کمیونزم اورسوشلزم” کے درمیان موازنہ کیا گیا ہے۔ مارکس اوراینگلز کی ایک اورتصنیف “قاطع ڈیورنگ” میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے: “جب سے سرمایہ دارانہ طریقہِ پیداوارتاریخ کے میدان میں نمودار ہوا ہے ایسے افراد اورفرقے موجود رہے ہیں جنہوں نے کم و بیش مبہم انداز سے ایک ایسے مستقبل کی عکاسی کی ہے جس میں تمام ذرائع ملکیت میں لے لیے جائیں گے۔ تاہم، اس بات کو عملی بنانے کے لیے، اسے تاریخی طورپرضروری بنانے کے لیے، پہلے ان معروضی حالات کو تخلیق کرنا ضروری ہے جن میں اسےعملی جامعہ پہنایا جائے گا۔”مارکس اوراینگلز کی تنقید کا نچوڑہمیں یہ دکھاتا ہے کہ سوشلزم کے نام پرپیش کی جانے والی ہرچیز کا تعلق مزدورطبقے اورکمیونسٹوں کے تاریخی کردار سے نہیں ہوتا۔

بیسویں صدی میں تعمیر کیے گئے سوشلزم کا انکار:

اکیسویں صدی کے سوشلزم کا پرچار کرنے والوں میں ایک بنیادی خاصیت ہے: سوویت یونین اوریورپی و ایشیائی ملکوں میں سوشلزم کی تعمیر کے تجربے کو مسترد اورمحدود کرنا۔ کچھ لوگ اس سے آگے بڑھ کر، خود اکتوبرانقلاب پر الزام لگاتے ہیں اورایسا کرتے ہوئے وہ کارل کاؤتسکی اوردوسری انٹرنیشنل کے موقع پرستوں کے پرانے خیالات کا سہارا لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس وقت مزدور طبقے کے ہاتھوں سیاسی اقتدار پرقبضہ کرنے کے لیے حالات ناپختہ تھے اورسوشلزم کی تعمیر ناممکن تھی کیونکہ اس کے لیے سرمایہ دارانہ نظام کی ترقی ضروری تھی۔ اس خیال سے وہ “جمہوریت” اور”کمیونزم” کے درمیان مبینہ علیحدگی کی بنیاد کی وضاحت کرتے ہیں۔

بیسویں صدی کے سوشلزم کو مکمل طورپرابتداء سے ہی ناکام قراردے کر اس کی مذمت کی گئی۔ تاہم، عمومی طورپر، حالانکہ وہ اکتوبر1917 کو جائز سمجھتے ہیں، لیکن “اکیسویں صدی کے سوشلزم” کے شارحین بنیادی اہمیت کے حامل معاملوں میں سوشلزم کی تعمیر پر ، بالشویک پارٹی کے کردار پر خصوصاً، اورمارکس ازم-لینن ازم پر عمومی طور پر، ٹراٹسکائی تنقید کے خیالات اپناتے ہیں۔ آگے ہم ان کا مزید جائزہ لیں گے۔

اس معاملے میں انہیں دوسروں سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ مثال کے طورپر، 2002 میں اٹلی کی کمیونسٹ پارٹی کی تعمیرِ نو کے لیے پانچویں کانگریس میں برٹینوٹی کے موقع پرست گروہ کی جانب سے اختیار کیا جانے والا موقف جس نے “سوشلزم کا جس طرح نفاذ کیا گیا اس کے تجربے میں بنیادی مداخلت” کی بات کی ، ایک ایسی بات جس کے لیے وہ “سٹالن ازم سے مکمل قطع تعلق” کا حوالہ بھی دیتے ہیں۔

یہ دلیل دی جاتی ہے کہ نام نہاد اکیسویں صدی کے سوشلزم کی خاصیت میں شامل اس قسم کے بعض رجعتی خیالا ت پر تنقید اس لیے نہیں کی جاتی تاکہ سامراج مخالف جدوجہد کے مرکز لاطینی امریکہ میں،وینزویلا، ایکواڈوراوربولیویا وغیرہ میں جاری تحریک کو نقصان نہ پہنچے۔ حتی کہ بعض ایسی کمیونسٹ پارٹیاں بھی ہیں جن کے پروگرام، پروپیگنڈہ اورروزمرہ کی اصطلاحوں میں ایسے تصورات شامل ہیں۔

اپنے تنقیدی اورمختلف نکتہ نظر کو واضح کرتے ہوئے ہمیں یقین ہے کہ ہم سامراج مخالف ان تحریکوں کی تعظیم میں کمی نہیں آنے دیتے ۔ ہم ان کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ تحریکیں “اکیسویں صدی کے سوشلزم” کے پرچم تلے پیدا نہیں ہوئیں اوراپنے ابتدائی پروگرام کے تعلق سے یہ اب کافی ترقی کرچکی ہیں۔ لیکن یہ اضافہ کرنا بھی ضروری ہے کہ یہ مستحکم تحریکیں نہیں ہیں اوریہ کہ “اکیسویں صدی کے سوشلزم” کے تحت پھیلائی جانے والی نظریاتی الجھنیں انہیں شکست کے راستے پر لے جا سکتی ہیں۔

مارکس سے اتفاق کرتے ہوئے ہم کہتے ہیں کہ حقیقی تحریک کا ایک قدم ایک ہزارپروگراموں سے زیادہ اہم ہے۔ لیکن ہم یہ اضافہ بھی کرتے چلیں کہ ایک غلط پروگرام تحریک کوکھائی کی جانب لے جا سکتاہے۔ کمیونسٹوں کا فرض ہے کہ وہ مزدورطبقے اورعوام کے سامنے سائنسی سوشلزم کو راستے کے طورپررکھیں اور مارکسی-لیننی نظریے کا اورسوویت یونین اوردوسرے سوشلسٹ ملکوں میں سوشلزم کی تعمیر کے عمل کا دفاع کریں۔سرمایہ دارانہ نظام کا تختہ الٹنے کاسبق حاصل کرنے کے لیےتجربے کا سنجیدہ اورمارکسی مطالعہ کرنا ضروری ہے۔ لیکن موقع پرستی، اصلاح پرستی ، ترمیم پرستی اوررجعت پرستی کی جانب سے وضع کیے گئے دلائل کی بنیاد پر مزدور طبقے کے تاریخی تجربے کی مذمت کی جاتی ہے۔کمیونسٹ اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ جس طرح پیرس کمیون کے مزدورانقلاب کے کم وبیش 70 دنوں نے وہ غیرمعمولی تعلیمات فراہم کیں جنہوں نے مزدورطبقے کے انقلابی نظریے کو مالا مال کیا اسی طرح اکتوبر کے عظیم سوشلسٹ انقلاب کے ساتھ شروع ہونے والی سوشلزم کی تعمیر کا تجربہ کمیونزم اورسوشلزم کی جدوجہد میں مزدور طبقے کی میراث کی سرپرستی کا قابل قدر حصہ ہے۔ اسے درگزرکرنا یا مسترد کرنا سنگین غلطی ہے۔

ہم یونانی کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی کی جانب سے عظیم اکتوبرسوشلسٹ انقلاب کی 90ویں سالگرہ کے بارے میں دستاویز کی اس بات سے متفق ہیں: “کمیونزم کے نظریاتی محاذ کے سامنے موجود اہم فرائض میں سے ایک یہ ہے کہ مزدورطبقے کی نگاہ میں بیسویں صدی کے سوشلزم کا سچ بحال کیا جائے، مثال سازی کے بغیر، معروضی انداز سے، اورپیٹی بورژوا طبقے کی بہتان تراشی سے آزاد ہوکر۔سوشلزم کی ترقی کے قوانین کا دفاع اوراس کے ساتھ بیسویں صدی میں سوشلزم کی اعانت کا دفاع ان موقع پرست نظریات کو جواب دینے کا تقاضا کرتا ہے جو سوشلزم کے “نمونوں” کو “قومی” خاصیتوں میں ڈھالنے کی بات کرتے ہیں۔ یہ (سوشلزم کی تعمیر) میں غلطیوں کی شکست خوردہ بحث کا جواب بھی دیتا ہے۔”

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ : پہلی قسط میں پاویل بلانکو کی جگہ الیجاندرو گومز کا نام غلطی سے شامل رہ گیا تھا

Facebook Comments

شاداب مرتضی
قاری اور لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply