الیکشن کا چاند نظر آ گیا ہے

آپ میں سے جو لوگ اس تہوار سے ناواقف ہیں انکے لئے عرض کرتا چلوں کہ الیکشن پانچ سال پر مشتمل بکرا عید ہے جس میں قوم کے کلیجے پر چھریاں چلائی جاتی اور اسکی بوٹیاں نوچی جاتی ہیں ان پانچ سالوں میں ہمیں اتنا وقت دیا جاتا ہے کہ ہم اپنے لئے چھری کا انتخاب کرلیں، اسکے لئے اپنی مدت کے آخری دو سالوں میں خوب چھریاں تیز کی جاتی اور چمکائی جاتی ہیں۔ انتخاب کے اس حق کو “ووٹ” اور اس دن کو “الیکشن کا دن” کہا جاتا ہے۔ ضمناََ ایک بات عرض کرتا چلوں کہ جب ہم جمہوریت درآمد کر رہے تھے تب ہم کمپنی سے وہ کتابچہ طلب کرنا بھول گئے جس میں ہدایات درج ہوتی ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ ہمیں الٹ پلٹ کے جمہوریت کو اپنی طبیعت اور اپنے ماحول کے حساب سے ایڈجسٹ کرنا پڑا۔ خیر ہم نے جمہوریت درآمد کی لیکن ساتھ ہم ضروری چیزیں یا جنہیں ہم ایکسسریز کہتے ہیں وہ درآمد نہ کرسکے۔ اسکا نقصان یہ ہوا کہ وہ جمہوریت جسے انسانوں کے اجماع نے ایک بہترین نظام حکومت کے طور پر چنا تھا ہمارے لئے وبال جان بن چکی ہے۔ اور اس جمہوریت کے سائے میں کچھ آمروں نے پرورش پائی اور قوم کے کچھ مقتدر حلقوں کو سٹالک ہوم سنڈروم ہو گیا۔ (سٹالک ہوم سنڈروم اغوا کار اور اغواہ شدہ کے درمیان ایک عجیب سا میلان پیدا ہوجانا ہے۔ شادی شدہ بلکہ شادی زدہ حضرات اس سنڈروم سے خوب واقف ہیں)
دو ہزار سترہ کے اوائل میں ہی ہمیں الیکشن کا چاند نظر آنا شروع ہوگیا تھا اور جن علاقوں میں یہ نظر نہیں آیا وہاں انشاءاللہ جلد بفضل تعالیٰ یہ نظر آنا شروع ہوجائے گا۔ گورنمنٹ کو “بیلنس آف پیمنٹ”، جی ڈی پی، انفلیشن ریٹس اور اس سے متعلق معاشیاتی ہتھیاروں کی فکر پڑ چکی ہے۔ قصائی اب دوبارہ پوری تیاری سے میدان میں آ رہا ہے۔ اور یہ کام صرف اقتدار والے نہی بلکہ اقتدار کی خواہش والے بھی کر رہے ہیں۔ اور اس بار پھر وعدے ہونگے اور یقین مانئیے کہ ہر بار کی طرح اس بار بھی نئے لیبل کے ساتھ پرانی شراب ہمیں بیچی جائے گی۔ اور قوی امید ہے کے اس شراب کے دو دو جام ہمیں مدہوش کرنے کو کافی ہونگے اور ہم اپنی شہہ رگ پر انگوٹھا خود رکھوائینگے۔
لیکن اس بار میری ایک گذراش ہے۔ جب آپکے حلقہ جات میں مانگنے والے آئیں، خواہ وہ نوکروں کے ہیلی کاپٹر پر پھٹے پرانے کپڑے اور پاؤں میں لکڑی کا جوتا پہنے کیوں نہ برآمد ہوں۔ ان سے وعدوں کی بجائے انکی حکمت عملی مانگ لیجئے گا۔ جوش خطابت میں، منہ سے لعاب دہن کی بارش کے درمیان وہ آپ سے وعدہ ضرور کرینگے کہ ہم آپکو اگلے پانچ سال پانی پر چل کر دکھائینگے۔ اس بار انکی زبان اقدس سے نکلے موتیوں کو سمیٹنے کے بعد ان کی مداری دیکھنے کی خواہش کا اظہار فی الفور کردیجئے گا۔ کیونکہ اگلے پانچ سال تو آپ اپنے اور دوسروں کے پیاروں کے لاشے ہی گننے میں مصروف ہونگے پھر کس کو فرصت ہوگی کہ پارلیمنٹ کی جھوپنڑی کے ہزار حجروں سے تہجد کے سسکتے فاقہ کش وزیروں کو لا کر دکھائے کہ صاحب میرا بچہ کھو گیا ہے۔ اسے ڈھونڈ دو نا، پھر کسے فرصت ہوگی کہ وہ تھر میں تمہارے بلکتے اور سسکتے بچوں کے حلق کو تر کرنے کی سبیل کردے!
اس بار سی پیک، پاناما لیکس، کرپشن، بجلی، پانی، تعلیم، روٹی اور ایسے کئی رقص ہر دوسرے سٹیج پر ہونے والے ہیں۔ ڈی جے بٹ کے گانوں پر رقص کرنے سے قبل اس بات کو خوب اچھے سے سوچ لینا کہ ٹھیک ایک ماہ بعد اگلے پانچ سال کے لئے افلاس تمہارے صحن میں رقص کرےگا اور ملک میں موت کا ننگا ناچ ہوگا۔ پھر تم ان ہذیانی قہقوں اور چیخوں سے چھٹکارا نہ پاسکوگے۔اس بار وعدے کے ساتھ وہ فائل لازمی مانگ لینا جس میں حکمت عملی لکھی ہو۔
اور اگر وقت ملے اور لسانی، مذہبی اور فرقہ واریت کی جنگ سے فرصت ہو تو ایک احتجاج اس پر بھی کرنا کے الیکشن سے پہلے وزیر اعظم اور صدر اور کسی بھی عہدے کے لئے نامزد امیدوار آ کر ذرا ہمیں بھی تو بتائیں کہ وہ اس ملک کی پھنسی کشتی کو کیسے کنارے تک لے جائینگے؟ اس بار الیکشن کمیشن سے احتجاج شفاف الیکشن کے ساتھ ایک پریذڈینشل ڈیبیٹ کے لئے بھی کرنا، پھر نواز شریف صاحب لجاتےہوں یا وہ یہ پالیسی کو کسی دہرے کاغذ میں پہلے سے لکھ کر کسی طوطے کی طرح کر رٹ کرسنائیں یا خان صاحب گلا پھاڑ کر، ہمیں اس بار وعدے نہیں پالیسی درکار ہے۔ آپ سے وعدے ہونگے اور ہر بار کی طرح اس بار زیادہ جوش سے ہونگے لیکن اگر واقعی ہی ہم چاہتے کہ ہماری تقدیر بدلے تو پی ٹی آئی والوں کو خان صاحب کو کٹہرے میں لانا ہوگا، ن لیگ والوں کو میاں صاحب اور انکی ٹیم کو، سراج الحق صاحب والوں کو سراج الحق صاحب کو، فضل الرحمنٰ صاحب والوں کو فضل الرحمنٰ صاحب کو اور ہم سبکو انہیں آمنے سامنے لا کر بٹھانا ہوگا۔ اس بار کہنا ہوگا کہ ہمیں نہ تو ماضی کے عظیم الشان قصائص درکار ہیں اور نہ حال کی محرومیاں اور نہ ان پر تمہارے دعویٰ جات، ہمیں مستقبل کی واضح تصویر اور اسکے ساتھ تمہاری پالیسی درکار ہے۔
ورنہ ووٹ نہ دینا کیونکہ اگر تم ایسا کروگے تو ہر مرنے والے کا خون اپنے ہاتھوں پر لوگے۔ ووٹ دینا لیکن اس وقت تک نہ دینا جب تک تمہارا لیڈر تمہیں وعدوں کی میٹھی گولی کےساتھ نسخہ نہ تھما دے۔ یہ وقت کی ضرورت ہے، میں چوکیدار ہوں، آواز لگاتا رہونگا اگلے سال الیکشن کے دن تک، جاگ جاؤگے تو اچھا ،ورنہ تمہارے بچوں کا خون تمہارا دامن تر کردے گا اور پھر سسکیوں اور رونے کے سوا کچھ نہیں ہوگا ہاں مذمت ہوگی اور پرزور ہوگی۔ جاگ جاؤ کیونکہ الیکشن کا چاند نظر آ چکا ہے!

Facebook Comments

محمد حسنین اشرف
ایک طالب علم کا تعارف کیا ہوسکتا ہے؟

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply