ڈاکٹری شعبے میں ناپید ہوتے ڈاکٹر۔۔ڈاکٹر عزیر سرویا

ڈاکٹری دراصل خدمت پر مبنی پیشہ ہے، اور یہ بات بس بطور cliche نہیں کہہ رہا بلکہ یہ ایک نہایت بنیادی پریکٹیکل قسم کی سچائی ہے۔

اس میں (کامیابی سے) چلنے کے لیے ایک خاص قسم کا مزاج اپنانا پڑتا ہے۔ کسی کے پیشاب والی جگہ پر نالی ڈالنا، انگلی سے پاخانے والی جگہ کی صفائی جیسے کام کرنے کے لیے اپنے اندر ہر کسی کو مخصوص تبدیلیاں لانا پڑتی ہیں۔ یہ تبدیلیاں لانا میرے جیسے مڈل کلاس ملازمت پیشہ والدین کی پرورش والے بندے کے لیے قدرے آسان ہوتی ہیں، مگر کسی بزنس ٹائیکون کے گھر میں نازوں پلی/پلے کے لیے، جسے بستر سے اترتے ہی جوتا بھی ملازم ہاتھ سے پہناتے ہوں ذرا مشکل ہوتی ہیں (حتی کہ کئی بار ناممکن)۔

سرکاری ہسپتال کا چکر لگانے والے جانتے ہوں گے کہ وہاں بڑھتی ہوئی تعداد میں ینگ لیڈی ڈاکٹرز (ہاؤس آفیسرز) اب نظر آتی ہیں۔ اور ان میں سے بھی ذرا سا غور کریں تو ایک طبقہ بڑا ممتاز نظر آ رہا ہوتا ہے، بالکل مغربی تراش خراش والا مہنگا لباس، ناخنوں ہونٹوں اور بالوں کے انوکھے رنگ و ڈیزائن، کام کہنے سے موت کا فوراً پڑ جانا ان کے امتیازی اوصاف ہوتے ہیں۔

ایک زمانے میں میڈیکل کالج میں داخلہ ملنے کا معیار محض میرٹ تھا، وہی آتے تھے جن کو واقعی حالات کا جبر اتنا پڑھنے کے لیے مجبور کرتا تھا۔ مالدار طبقہ مال کماتا تھا اور اسے بڑھاتا تھا، پڑھائی کی ٹنشن پالنے کا ان کے پاس وقت ہی نہ ہوتا تھا۔

پھر تعلیم کا فیشن چلا، ڈاکٹری کو خواہ مخواہ لائقی اور “انٹلکچوئلیٹی” سے جوڑا جانے لگا، تو بہت سی پاپا کی princesses نے آئی فون، ارمانی اور گوچی کے بیگز اور جوتے مانگنے کے ساتھ ساتھ میڈیکل کا داخلہ بھی ابا سے مانگنا شروع کیا۔ غریبوں اور مڈل کلاسیوں کے پاس لائقی کا لیبل رہے، یہ بڑے لوگوں کی انا کب تک برداشت کر سکتی تھی۔

نتیجتاً پاکستان میں میڈیکل کی تعلیم نہ صرف مکمل کمرشلائز ہو گئی، بلکہ معیار کا بھی بھٹہ  بیٹھ گیا۔ کیونکہ پاپا کی پرنسسز کو کام یا قابلیت سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی بس ایک اسٹیٹس سِمبل کے طور پر یا ضد پوری کرنے کو انہیں میڈیکل کی ڈگری درکار ہوتی ہے، سو دوران تعلیم اور پھر ہاؤس جاب میں بھی ان کا تمام تر دھیان اچھا تیار ہونے اور کام پر آ کے
‏living life to the fullest کے فلسفے پر ہوتا ہے۔

سرکاری ہسپتالوں میں ہاؤس جاب کے لیے آنے والی یہ مخلوق نہ صرف آنے والے مریضوں سے بالکل الگ تھلگ ہوتی ہے بلکہ ان کے دیگر کولیگ (سرکاری گریجویٹ و سادہ وضع قطع والے غیر سرکاری گریجویٹ) بھی ان کے سامنے ایسے ہی لگ رہے ہوتے ہیں کہ گویا کسی دوسرے سیارے کے ہیں۔ ان کے پروٹوکول سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ برطانیہ کے شاہی خاندان کی خواتین کچھ عرصہ اپنی رعایا کے پاس فلاحی کام کرنے آئی ہیں۔

ان کو کام کہنا، ان سے کام لینا، حتی کہ ان سے بات تک کرنا ایک عذاب ہوتا ہے۔ ان کے جعلی انگریزی ایکسنٹ (تصور کریں وہ پنجابی والی ویڈیو میں کامن سینس کو سینس آف ہیومر کہنے والی عورت ہمہ وقت آپ کے پلے پڑی رہے)، عجیب و غریب لباس، بڑھے ناخن اور رئیسانہ مزاج، ہر طرح پروفیشنل ازم کی ضِد ہوتے ہیں، لیکن ان کو یہ کہنا یا باور کرانا بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے جیسا ہوتا ہے۔ چونکہ ان کے ہاتھ میں باقی تمام کارڈوں کے ساتھ وومن کارڈ بھی ہوتا ہے، تو کسی جائز بات پر بھی آپ کو اخیر میں “عورت سے بات کرنے کی تمیز نہیں ہے” کہہ کر چِت کرنے کی صلاحیت ان میں پائی جاتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ذرا غور کریں تو ہسپتالوں میں بدتمیزیاں، جھگڑے، لڑائیاں اور عمومی طور پر خراب ماحول کا تعلق اس کمرشلائزیشن اور امیر کبیر نسل کے اس پیشے میں آنے سے براہ راست جڑا ملے گا۔ ہمیں مذاقاً سینئر کہا کرتے تھے کہ ہاؤس آفیسر اور میڈیکل آفیسر کے نام میں آفیسر علامتی ہوتا ہے، اسے کبھی سیریس نہیں لینا۔ جو اقلیت اس خدمت والے پیشے میں افسری یا رئیسانہ ٹھاٹھ ساتھ رکھ کر چلنے کی متمنی ہے اس نے پوری کمیونٹی کے لیے مسائل کھڑے کر دیے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply