خوبصورت دریافت ۔ جین (10) ۔۔وہاراامباکر

چاند پر پہلا قدم، فیثاغورث کی مثلث، لاشاں غار کی مصوری، اہرامِ مصر، خلا میں دور دراز سے لی گئی نیلگوں نقطے جیسی زمین کی تصویر، ۔۔۔ ڈی این اے کا ڈبل ہیلکس بھی ویسی ہی آئیکونک تصویر ہے۔ انسانی تاریخ اور یادوں میں رچی بسی۔ نوعِ انسان کی کامیابی کا نشان۔ اس معمے کو حل کرنے والے، اس کو معلوم کرنے والے برطانیہ میں روزالینڈ اور ولکنز کی ٹیم اور کرک اور واٹسن کی ٹیم تھی۔ لیکن اس پر صرف وہی کام نہیں کر رہے تھے۔

سمندر پار، پروٹین کی گتھی سلجھانے والے اور ان کو پڑھنے کی تکنیک کے بانی پالنگ بھی ڈی این اے کا سٹرکچر حل کر رہے تھے۔ ان کے پاس کیمسٹری، ریاضی، کرسٹلوگرافی کے علاوہ ماڈل بنانے کی اچھی سینس بھی تھی۔ واٹسن اور کرک کو خوف تھا کہ کسی روز وہ اٹھیں گے اور پالنگ اپنا کام شائع کر چکے ہوں گے۔ ان کا کام بے کار ہی رہ جائے گا۔ جنوری 1953 میں ان پر یہ بم گرا دیا گیا۔ پالنگ اور کورے نے ایک پیپر میں ڈی این اے کا سٹرکچر تجویز کیا تھا اور اس کی کاپی کیمبرج میں بھجوائی تھی۔ واٹسن کو لگا کہ جیسا سب کچھ ختم ہو گیا ہے۔ اس پیپر کے صفحے پلٹائے جہاں پر اس کی تصویر بنی تھی۔ یہ بھی ٹرپل ہیلکس تھا۔ فاسفیٹ اندر تھی۔ بیس باہر تھے۔ فاسفیٹ کو جوڑنے کے لئے کوئی “گوند” نہیں تھی۔ یہ کمزور بانڈ کے ساتھ جڑا ہوا تھا۔ ہاتھ کی یہ صفائی واٹسن کی نظر سے اوجھل نہ رہی۔ “اگر یہ ڈی این اے کا سٹرکچر ہے تو دھماکے سے پھٹ جائے گا”۔ واٹسن نے کہا کہ یہ ناقابلِ یقین حد تک غلط ہے۔ اس کو اپنے ایک کیمسٹ دوست کو دکھایا۔ اس نے بھی چند منٹ میں بتا دیا کہ یہ درست نہیں۔ اتنا بڑا سائنسدان ایسی غلطی کر سکتا ہے؟

واتسن نے کرک کو بتایا اور اس روز انہوں نے پالنگ کی ناکام ہونے پر سکھ کا سانس لیا۔ ڈی این اے کا سٹرکچر سلجھانے کی دوڑ ابھی جاری تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

روزالنڈ فرینکلن نے ڈی این کے ایک ریشے کو رات بھر ایکس رے سے ایکسپوز کیا تھا۔ اس سے آنے والی تصویر بہت اچھی تھی۔ یہ تصویر فوٹوگراف 51 تھی۔ واٹسن جب ولکنز سے ملنے گئے تو یہ تصویر ولکنز نے فرینکلن سے بغیر پوچھے واٹسن کو دکھائی۔ واٹسن اس کو دیکھ کر اچھل پڑے۔”اسے دیکھ کر میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ یہ سٹرکچر اس سے بہت سادہ تھا جو ہم سوچتے آئے تھے۔ اس کے درمیان میں سیاہ کراس کا نشان ہیلکس کا پتا دے رہا تھا۔ صرف چند منٹ کی کیلکولیشن سے اس میں زنجیریں گنی جا سکتی تھیں”۔

ٹرین کے واپسی کے سفر میں واٹسن نے اخبار پر خاکہ بنا لیا۔ جب تک وہ کیمبرج پہنچے تو قائل ہو چکے تھے کہ ڈی این اے چکر کھاتی دو زنجیروں کی شکل میں ہے۔ “ٹرین کے اس سفر کے دوران مجھے پتا لگ گیا کہ اس کے تار جوڑوں کی شکل میں ہیں”۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگلی صبح واٹسن اور کرک لیبارٹری میں پہنچے اور ماڈل بنانے لگے۔ طریقے سے، غور سے اور احتیاط سے۔ اگر انہیں دریافت کی یہ دوڑ جیتنی تھی تو اپنے وجدان پر بھروسہ کرنا تھا۔ پہلا ماڈل ٹھیک نہیں رہا۔ یہ مستحکم نہ تھا۔ دوپہر کے بعد واٹس کے ذہن میں آیا کہ ریڑھ کی ہڈی شاید درمیان میں نہیں۔ دونوں اطراف میں ہے۔ اس میں مخالف بیس (اے، ٹی، سی، جی) ایک دوسرے کا آمنا سامنا کرتی ہیں۔ ایک مسئلے کے حل نے ایک اور بڑا مسئلہ پیدا کر دیا۔ اگر بیس اندر کی طرف ہیں تو یہ ایک دوسرے سے ملتی کیسے ہیں؟

ایک آسٹرین کیمسٹ اورن شارگاف نے کولبمیا یونیورسٹی میں ایک اور چیز دریافت کی تھی۔ اے ہمیشہ ٹی کے برابر ہوتے ہیں اور جی ہمیشہ سی کے برابر۔ ایسے جیسے ان کا کوئی آپس میں تعلق ہو۔ اگرچہ واٹسن اور کرک کو اس اصول کا علم تھا لیکن انہیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ ڈی ان اے کے سٹرکچر سے اس اصول کا کیا تعلق ہو سکتا ہے۔

ایک دوسرا مسئلہ پیکنگ پرابلم تھا۔ بیس کو ایک دوسرے میں فٹ ہونے کیلئے پیمائش کا پریسائز ہونا بہت اہم ہو گیا تھا۔ یہاں پر روزلنڈ فرینکلن کا ڈیٹا بہت کام آیا۔ پہلے واٹسن نے اے کو اے کے ساتھ ملانے کی کوشش کی، ٹی کو ٹی سے، لیکن بننے والی شکل نفیس نہ تھی۔ ہیلکس کہیں سے موٹا ہوتا تھا اور کہیں سے باریک۔ اگلی صبح اس کو ترک کرنا پڑا۔

کسی وقت 28 فروری 1953 کی صبح کو واتسن کو خیال آیا کہ کیوں نہ اے کا جوڑا ٹی سے بنایا جائے اور سی کا جی سے۔ واٹسن کہتے ہیں۔ “اچانک مجھے سمجھ آئی کہ اے اور ٹی کے جوڑے کی شکل بالکل ویسی ہی ہے جیسا کہ جی اور سی کے جوڑے کی۔ ان دونوں کی ایک ہی شکل کا مطلب یہ ہے کہ کچھ اور نہیں کرنا پڑنا تھا۔ یہ جوڑے ایک دوسرے کے اوپر فٹ آ جاتے تھے۔ شارگوف کے قانون کے مطابق یہ ہوتے بھی ایک ہی مقدار میں تھے۔ اس کی وجہ یہ کہ یہ کمپلیمینٹری تھے۔ ایک زپ کے مخالف اطراف میں لگے دانتوں کی طرح۔ سب سے اہم ترین بائیولوجیکل آبجیکٹ جوڑوں کی صورت میں ہوتے ہیں”۔

اب واٹسن کرک کے آنے کا انتظار کر رہے تھے۔ کرک ابھی دروازے پر ہی تھے کہ واٹسن ان کے پاس پہنچ گئے۔ “ہر چیز کا جواب اب ہمارے ہاتھ میں ہے”۔ مخالف بیس کا آئیڈیا کرک کو بھی بھایا۔ اب ماڈل کی تفصیلات پر کام کرنا تھا۔ لیکن اس بریک تھرو کی اہمیت واضح تھی۔ “بننے والا ماڈل اس قدر خوبصورت تھا کہ غلط نہیں ہو سکتا تھا”۔ کرک اب سب کو بتاتے پھر رہے تھے کہ انہوں نے زندگی کا راز ڈھونڈ لیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہیلکس میں ڈی این اے کے دو چکر کھاتے تار ہیں۔ یہ رائٹ ہینڈڈ ہے۔ یعنی دایاں ہاتھ کے سکریو سے یہ اوپر کی سمت جائے گا۔ مالیکیول چوڑائی میں 23 اینگسٹروم ہے۔ (ایک اینگسٹروم ایک ملی میٹر کا دس لاکھواں حصہ ہے)۔ لیکن بہت پتلا اور لمبا ہے۔ اگر اس کو سیدھا کیا جائے تو جسم کے ہر خلیے میں دو میٹر کی لمبائی اس کی ہو گی۔ اگر ایک ہی تناسب سے بڑا کیا جائے اور ڈی این اے کی چوڑائی ایک دھاگے کے برابر ہوتی تو خلیے کا سائز دو سو کلومیٹر ہوتا۔

اس کی ہر تار پر بیس کے لمبے سیکوئنس ہیں۔ یہ ایک دوسرے سے فاسفیٹ کے ذریعے جڑے ہوتے ہیں۔ باہر کی طرف یہ چکر کھاتا ہوا ایک سپائرل بناتا ہے۔ اے، سی سے ملتا ہے اور سی، جی سے۔ اور یہ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ یعنی ایک تار دوسرے تار کا عکس ہے۔ دونوں میں انفارمیشن ایک ہی ہے۔

اے اور ٹی، سی اور جی کے درمیان مالیکیولر فورس ان تاروں کو باندھ دیتی ہے جیسا کسی زپ کے ساتھ بند ہوتا ہے۔ دونوں تاریں اپنے عکس کے ساتھ بندھی ہوئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شاعیر پال والیری نے ایک بار کہا تھا کہ “ایک بار اسے دیکھ لیا تو پھر نام یاد رکھنے کی ضرورت نہیں”۔ ڈی این اے کی تصویر دیکھ لینے کا مطلب یہ تھا کہ اب اس کے کیمیکل فارمولے یا نام کو بھلایا جا سکتا تھا۔ ہتھوڑی، درانتی، سیڑھی، قینچی، جیسے اوزاروں کی طرح اس کا فنکشن اس کے سٹرکچر سے سمجھا جا سکتا تھا۔ بائیولوجی کے سب سے اہم مالیکیول کو پہچان لیا گیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

واٹسن اور کرک نے مارچ 1953 میں اپنا ماڈل مکمل کر لیا۔ ایک ایک کر کے ماڈل میں ٹکڑے جوڑے گئے۔ پلمب لائن اور رولر کی مدد سے ہر زاوئے اور چوڑائی کی پیمائش کی گئی۔ سب چیزیں پرفیکٹ بیٹھ رہی تھیں۔

مورس ولکنز کو اگلی صبح دکھانے کے لئے بلایا گیا۔ ایک منٹ اس کا جائزہ لینے کے بعد یہ انہیں پسند آ گیا۔ انہوں نے لکھا، “ماڈل ایسا لگ رہا تھا جیسے نوزائیدہ بچہ ابھی پیدا ہوا ہو اور خود بول رہا تھا کہ مجھے پرواہ نہیں تم کیا سمجھتے ہو۔ مجھے پتا ہے کہ میں ٹھیک ہوں”۔

اس کے بعد روزالنڈ فرینکلن کو یہ ماڈل دکھانے کے لئے بلایا گیا۔ واٹسن کو تشویش تھی کہ وہ کوئی غلطی نکال دیں گی لیکن فرینکلن کو قائل کرنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ اس سٹیل کے پھندے میں انہوں نے خوبصورت حل پہچان لیا تھا۔ “یہ اس قدر خوبصورت تھا کہ یہ غلط ہو ہی نہیں سکتا تھا”۔ یہی تبصرہ فرینکلن کا تھا۔

واٹسن اور کرک نے 25 اپریل 1953 کو اپنا پیپر نیچر میگزین میں شائع کیا۔ اسی شمارے میں فرینکلن اور گوسلنگ نے اپنا پیپر شائع کیا جس میں کرسٹلوگرافی کی مدد سے شواہد شامل تھے۔ تیسرا آرٹیکل ولکنز کی طرف سے تھا جس میں تجرباتی ڈیٹا سے شواہد تھے۔

واٹس اور کرک کے آرٹیکل کی آخری لائن سب سے اہم جملہ تھا، “ہم نے یہ بھی نوٹ کیا ہے کہ اس طرح کا جوڑا بننا جینیاتی میٹیریل کے کاپی ہونے کا طریقہ ممکن کرتا ہے”۔ ڈی این اے کا سب سے اہم فکنشن ۔۔ اپنی کاپی ایک خلیے سے دوسرے میں منتقل کرنا اور ایک جاندار سے دوسرے میں پہچانا ۔۔ اس سٹرکچر کے مرہونِ منت تھا۔

پیغام، حرکت، انفارمیشن، فارم، ڈارون، مینڈیل، مورگن، سب اس مالیکیول کے سٹرکچر میں لکھا تھا۔

واٹس، کرک اور ولکنز کو اس دریافت پر 1962 میں نوبل انعام ملا۔ انعام لینے والوں میں روزالنڈ فرینکلن شامل نہں تھیں۔ ان کا انتقال 1958 میں جب ہوا تو ان کی عمر 38 برس تھی۔ ان کی کسی جین میں ہونے والی میوٹیشن ان کے اووری کینسر کا باعث بنی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

واٹسن اور کرک کے ماڈل نے جین کے تصور کا ایک باب مکمل کر دیا تھا۔ ایک پرسرار کیرئیر سے ایک مالیکیول تک جو کوڈ رکھ سکتا ہے، سٹور کر سکتا ہے، انفارمیشن ایک جاندار سے دوسرے تک لے جا سکتا ہے۔ پیغام کا ذریعہ دیکھ لیا گیا تھا لیکن یہ کوڈ کیا تھا؟ کیا اس کو انسان پڑھ سکتے ہیں؟ جینیات میں بیسویں صدی کا دوسرا نصف اس سوال کے بارے میں تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ساتھ لگی تصویر روزالنڈ فرینکلن کی ہے۔ اوپر کی طرف فوٹوگراف 51 نظر آ رہی ہے جو ڈی این اے کی شکل معلوم کرنے کی اہم ترین تصویر تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply